پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے تعین کا طریقہ کار تبدیل کرنے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے جس کے تحت یہ قیمتیں ہر دن تبدیل کی جائیں گی تاکہ پاکستانی روپے کی قدر میں تیزی سے ہونے والی تبدیلی کی وجہ سے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں اور ریفائنریز کے نقصانات کو کم کیا جا سکے علاوہ ازیں پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت پر حکومت کو ملنے والا فائدہ (مارجن) ڈیلرز کے برابر بڑھایا جائے گا جس کے بعد پیٹرول پر مارجن میں 43فیصد اور ہائی سپیڈ ڈیزل پر 70فیصد اضافہ متوقع ہے۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیاں زیادہ ٹیکس کی تلافی کے لئے اپنے منافع (مارجن) میں 9روپے فی لیٹر اضافے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات سے متعلق فیصلہ سازوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حالیہ مہینوں میں ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر میں کمی کے بعد قیمتوں کے تعین کا موجودہ طریقہ کار غیرمؤثر ہو چکا ہے۔ پالیسی ایجنڈے میں موجودہ پندرہ روزہ کے بجائے ہفتہ وار یا روزانہ کی بنیاد پر قیمتوں کی ایڈجسٹمنٹ یا ہر ماہ کے آغاز میں حکومت کی طرف سے مختلف ٹیکسوں کے تعین کے بعد صنعت کو اپنی قیمتیں ازخود طے کرنے کا اختیار ہونا چاہئے۔
پاکستانی روپے کی قدر میں گزشتہ پندرہ دن کے دوران کمی کا رجحان معمولی اضافے کے باوجود برقرار ہے۔ چودہ جولائی کے روز ایک ڈالر 209.725 روپے جبکہ اگست کے ابتدائی پندرہ دن (یکم سے پندرہ اگست) کے لئے ’آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کو 236.0394 روپے فی ڈالر کے حساب سے شرح تبادلہ کا سامنا ہے۔ زر مبادلہ کی شرح میں تیزی سے کمی کے مضمرات کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور جولائی کی پیٹرولیم قیمتوں کے تعین کے طریقہ کار کے لئے کسی مہینے کے آخری دن کی شرح تبادلہ کی بجائے اوسط انٹربینک شرح کا قیمتوں کے لئے پیمانہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ روپے کی قدر میں تبدیلی میں کمی کے اثرات کو برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کی جا سکے۔ اگر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین یومیہ بنیادوں پر ہونے لگا تو اِس سے مہنگائی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اصولاً پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں سے مشروط ہونی چاہئیں لیکن اگر اِسے ڈالر کی قدر سے جوڑ دیا گیا تو عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کم کا فائدہ صارفین کو منتقل نہیں کیا جا سکے گا۔
توجہ طلب ہے کہ پہلے ہی مہنگائی گزشتہ چودہ برس کے عرصے میں بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ جولائی دوہزاراکیس میں مہنگائی 8.4فیصد جبکہ موجودہ قریب پچیس (24.9) فیصد ہے اور یہ اعداد و شمار اِس لئے بھی پریشان کن ہیں کیونکہ حکومت پاکستان نے سٹیٹ آئل (پی ایس او) کے ذمے واجب الادا مالیاتی ذمہ داریوں اور اِسے نادہندہ ہونے سے بچانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں جو کئی حوالوں سے ضروری ہے کیونکہ ’پی ایس او‘ ملک میں پیٹرولیم و ایندھن کی فراہمی میں ’ریڑھ کی ہڈی‘ جیسی کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور اگر پیٹرولیم مصنوعات کی فراہمی میں کسی بھی وجہ سے خلل پڑا تو یہ معاشی بحران کو مزید بڑھا دے گا۔ اِس صورتحال میں جبکہ ’پی ایس او‘ کو اضافی اربوں روپے درکار ہیں اور آئی ایم ایف سے وعدے کے مطابق بجٹ میں اِس سبسڈی کی گنجائش بھی نہیں تو حکومت ایسا انتظام کر سکتی ہے کہ آمدن و اخراجات پر نظرثانی کی جا سکے۔
حکومت نے چھوٹے تاجروں کو ٹیکس سے چھوٹ کا بروقت فیصلہ کیا ہے‘ جس سے تاجروں کی پریشان بڑی حد تک ختم ہوئی ہے جو یقینی طور پر احتجاج کا سوچ رہے تھے لیکن اگر ایک طرف سے ٹیکس میں چھوٹ اور دوسری طرف ’پی ایس او‘ کو امداد (بیل آؤٹ پیکج) دیا جاتا ہے تو اِس کے لئے آمدنی اکٹھا کرنے کا کوئی نیا طریقہ تلاش (تخلیق) کرنا پڑے گا۔ اِس مشکل صورتحال سے نکلنے کے لئے ”ٹیلی فونک ڈپلومیسی“ کو بھی آزمایا گیا ہے ان حالات میں‘ خبر یہ ہے کہ پاکستان نے ’آئی ایم ایف‘ کی طرف سے بیل آؤٹ پیکج حاصل کی کوششوں کا بھی آغاز کر دیا ہے جس کا مطلب ہے پیٹرولیم مصنوعات اور حکومت کی دیگر خدمات کی قدر میں اضافہ کرنا ہوگا۔ امید پر دنیا قائم ہے اور اُمید کی دنیا کی نظریں آئندہ تین ہفتے بعد ہونے والے آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ اجلاس پر مرکوز ہیں جس میں پاکستان کے لئے ’توسیعی فنڈ سہولت‘ کی بحال کی منظوری ایجنڈے کا حصہ ہے اور اِس توسیعی فنڈ (قرض) سے پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی منڈیوں تک رسائی ملنے کے علاوہ مقامی منڈیوں میں معاشی افراتفری کے ماحول کو بڑی حد تک اور چند ماہ کے لئے پرسکون کرنے کی موقع ہاتھ آ جائے گا لیکن جب تک ’آئی ایم ایف‘ سے قرض کی قسط نہیں ملتی اُس وقت تک ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر مستحکم نہیں ہو سکتی۔
جس کے زیر اثر مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت معاشی مشکلات کو کم کرنے کے لئے موثر اقدامات کر رہی ہے اور عالمی سطح پر کساد بازاری اور ایندھن کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے باوجود عوام کو ممکن حد تک ریلیف دینے کے لئے بھی منصوبہ بندی میں مصروف ہے اس لئے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ عوام کو مایوسی کی بجائے امید کا دامن تھامے رکھنا چاہئے۔ حال ہی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جو عالمی سطح پر کمی ہوئی ہے تو یہ بھی موجودہ حالات میں ایک مثبت پیش رفت ہے جس کے اثرات آنے والے دنوں میں نظر آئیں گے دوسر ی طرف ایک اور مثبت پیش رفت یوکرائن سے غلے کی برآمدات کاآغاز ہے جس سے غذائی اجناس کی قیمتوں میں کمی کا امکان بڑھ گیا ہے۔