محرم الحرام کے دوران امن و امان برقرار رکھنے کی کوششیں وسیع پیمانے جاری ہیں، اندرون شہر کے کئی علاقوں میں کاروباری مراکز 2 محرم الحرام ہی سے بند کروا دیئے ہیں جبکہ شہر میں داخلے کے راستے بھی کم کر دیئے گئے ہیں۔ ماضی میں اِس قسم کے اقدامات و انتظامات 6 محرم الحرام سے کئے جاتے تھے اور انہی اقدامات و انتظامات کے تحت مذہبی اجتماعات سے ملحقہ مساجد میں ایک ایک پولیس اہلکار کی ’مستقل تعیناتی‘ بھی چھ محرم الحرام ہی سے ہوتی تھی لیکن اِس کا عرصہ بھی بڑھا دیا گیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی بھی قسم کی کوتاہی نہیں کرنا چاہتے اور اُن کی کوشش ہے کہ محرم الحرام کا پہلا عشرہ (یکم سے دس محرم الحرام) بنا کسی حادثے کے گزر جائے تاہم محرم الحرام کی مناسبت سے اجتماعات اور جلوسوں کا تعلق صرف ’یوم عاشور (دس محرم)‘ تک نہیں بلکہ یہ سلسلہ سوئم امام سے چہلم امام (اربعین) تک پھیلا ہوا ہے جو ’ایام عزأ‘ کا حصہ ہے۔
ذہن نشین رہے کہ ’ایام عزأ‘ کہلانے والا عرصہ 8 ربیع الاؤل تک جاری رہتا ہے‘ جس کے بعد مساجد و امام بارگاہوں اور مزارات کی سیاہ پوشی ختم کر دی جاتی ہے اور اِس دوران مجموعی طور پر ہزاروں کی تعداد میں اجتماعات منعقد ہوتے ہیں‘ جن کی حفاظت کے لئے پولیس کو خصوصی انتظامات کرنا پڑتے ہیں اور یقینا پہلا عشرہ محرم سمیت 2 ماہ 8 دن کے ’ایام ِعزاداری‘ پولیس کے لئے کسی چینلج سے کم نہیں ہوتے۔ دیکھا جائے تو ہر سال ”محرم سیکورٹی پلان“ کے لئے پہلے سے زیادہ ’مالی و افرادی وسائل‘ درکار ہوتے ہیں۔ اضافی پولیس اہلکار دیگر اضلاع سے طلب کرنا پڑتے ہیں اور یہ ایک مہنگا عمل ہے۔ اگر اس ضمن میں الگ خطوط پر کام کیا جائے اوروقتی حکمت ِعملیاں تشکیل نہ دیں تو صورتحال اِس حد تک معمول پر آ سکتی ہے کہ ہر ضلع کی پولیس ہی اُس کی حفاظتی ضروریات کے لئے کافی ہوگی۔محرم سیکورٹی پلان کے تحت غیررجسٹرڈ گاڑیوں‘ فینسی نمبر پلیٹ‘ بنا نمبر پلیٹ گاڑیوں و موٹرسائیکلوں‘ گاڑیوں کے شیشے کالے کرنے یا ہیلمٹ کا استعمال نہ کرنے والوں کے خلاف مہم بھی جاری ہے۔
پشاور ٹریفک پولیس کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق محرم الحرام کے پہلے تین دنوں کے دوران بتیس سو پچاس سے زائد موٹرسائیکل سواروں کو ”ڈبل سواری“ کی خلاف ورزی کرنے پر جرمانہ جبکہ موٹرسائیکل کے ملکیتی کاغذات نہ رکھنے والے سینکڑوں موٹرسائیکل کو قبضے میں لے لیا گیا۔ ٹریفک قواعد کے خلاف اِس قسم کا ”کریک ڈاؤن“ اپنی جگہ اہم اور ضروری ہے تاہم پشاور شہر اور بیرون شہر کے علاقوں میں نہ تو ٹریفک سگنلز دیکھنے کو ملتے ہیں اور نہ ہی ٹریفک سائن بورڈز کے ذریعے آمدورفت کے بہاؤ کو نظم و ضبط کا پابند بنایا گیا ہے۔ یہ صورتحال پشاور کے علاوہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں زیادہ گھمبیر (ناقابل بیان) ہے۔ جن راستوں کو بند کیا جاتا ہے اُس سے متعلق عوام کو آگاہ کرنے کیلئے سائن بورڈز اور رہنمائی کی ضرورت ہے صوبائی فیصلہ سازوں کو چاہئے کہ ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد سے جو جرمانہ وصول کیا جاتا ہے اُس کا ایک خاص حصہ متعلقہ ضلع میں ٹریفک کے نظام کو مرتب کرنے کے لئے مختص کیا جائے۔ محرم الحرام کا تقدس‘ احترام اور اِس ماہ پیش آنے والے واقعات کی یادآوری کے لئے اجتماعات پشاور میں پائی جانے والی مذہبی رواداری‘ اخوت و محبت کا آئینہ دار ہے اور اِس گلدستے کا ہر پھول اہم اور خوشبو کے لحاظ سے منفرد ہے‘ جس کی تب و تاب اور تروتازگی برقرار رہنی چاہئے۔