بس اپنی دھن میں برستا ہے برسے جاتا ہے

 ساون کے موسم کے اپنے رنگ ڈھنگ ہیں لمحوں میں موسم بھیگ جاتا ہے یہ ابر و باراں کی وجہ سے بھی ہو تا ہے اور حبس کی وجہ سے بھی جب یار لوگ لو کی دعائیں مانگنے لگتے ہیں لیکن یہ حبس کبھی کبھی بارش کی نوید بھی بن جاتا ہے بہادر شاہ ظفر نے کہا ہے کہ 
 مینہ خوب برستا ہے جو ہوتی ہے ہو ا بند
 بہتے ہیں ظفر ؔ اشک دم ِ ضبط ِ فغاں اور 
اور جب مینہ خوب برستا ہے تو ندّی نالے بھر جاتے ہیں اور پانی اپنی گزرگاہ چھوڑ کر بستیوں میں بھٹکنے لگتا ہے اور جو بھی راہ میں آئے اسے بہا لے جاتا ہے‘ ان دنوں مون سون کی پٹی میں آن والے میرے شہروں اور قصبات کو کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے، آنیوالے ہفتہ عشرہ کیلئے بھی کم و بیش ایسی ہی پیشگوئی کی گئی ہے، تیز ہوائیں، گرج چمک کے ساتھ کہیں ہلکی کہیں تیز بارش اور کہیں موسم گرم مرطوب رہنے کی توقع کی جارہی ہے، برسات کی اس غیر یقینی صورتحال کے بارے میں اس خطے کے لوگوں کے درمیان جو کہاوتیں اور ضرب الامثال استعمال ہوتی رہی ہیں نئی موسمی صورتحال میں بہت کم اس کے مطابق ہیں، عالمی سطح پر بھی موسم میں بہت بدلاؤ آ چکا ہے آ رہا ہے لگے بندھے کلیے قاعدے استعمال کرنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑتا ہے، دیکھا جائے تو اب کے موسم گرما میں شدت اور حدت کے دن دو چار ہی تھے،قبل از وقت کی مون سون کی مہربانی سے موسم زیادہ تر معتدل ہی رہا، لیکن ساون سے پہلے جو ایک مون سون کا ایک زبردست دور چلا اس نے دریاؤں اور ندی نالوں کو نہ صرف بھر دیا بلکہ مسلسل بارشوں کے باعث یہ پانی بپھر بھی گیا اور دریاؤں نے اپنے کنارے آباد بستیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ناقابل تلافی نقصان پہنچایا سیلاب اس موسم میں آتے رہتے ہیں لیکن اب کے تو نہ رکنے والی بارشوں نے سیلابوں کی شدت میں بہت اضافہ کیا۔ اشرف بخاری نے کہا ہے کہ
 ہمارا حال ہے ان بستیوں کے لوگوں سا
 جو بس گئے اسی ساحل پہ جو کٹاؤ میں ہے
 اگر چہ بر وقت اطلاع بھی دی جاتی ہے مگر ہماری خوش فہمیاں ہمیں بروقت اقدام کی طرف جانے نہیں دیتیں، چند برس ادھر بھی ایسا ہی ایک خوفناک سیلاب آیا تھا اور اس وقت بہت کچھ تجویز
 کیا گیا تھا مگر کم کم ہی ان باتوں کی طرف توجہ دی گئی، جس کا نتیجہ یہی نکلا کہ ایک بار پھر بستیوں کو بہت نقصان اٹھانا پڑا، انسان کو آفات سماوی کا سامنا معلوم تاریخ سے کرنا پڑا ہے، شیکپیئرنے بھی اپنی معروف نظم میں یہی کہا ہے”کون ہے جو میرے ساتھ سر سبز و شاداب درختوں میں زندگی بسرکرنا چاہے گا جہاں سرما اور برے موسم کے علاوہ کوئی دشمن نہیں ہوتے“ برے اور نامہرباں موسموں کیلئے پہلے سے تیاری کر لی جائے تو بہتر ہو تا ہے تاہم فطرت کے سامنے بسا اوقات ہماری بے بسی اس بات کی غماز ہوتی ہے ہے کہ انسان عاجز ہے اور اسے اپنے مالک حقیقی کی طرف رجوع بھی کرنا ہے اور اسی سے مدد بھی مانگنا ہے۔ خصوصاً راتوں رات اچانک بپا ہونیوالی آفات کے مقابلے کیلئے تو انسان ہمیشہ سے خود کو بے بس پاتا ہے پھر بھی موسمی تبدیلیوں کا ادراک کل بھی (کم از کم دیہاتوں میں رہنے والے لوگوں کو) ہوتا تھا کیونکہ تب وہ فطرت کے بہت قریب رہتے تھے اور اپنے گرد پھیلی ہوئی اشیا کو دیکھ اور سمجھ کر اور انکے مطابق وہ اپنے شب روز کے معمولات ترتیب دیتے تھے موسموں سے انکی دوستی تھی بادل کا رنگ دیکھ کر وہ بارش یا اولوں کی پیشگوئی آسانی سے کر لیا کرتے تھے اس لئے انکی ترتیب دی ہوئی کہاوتیں اور ضرب الامثال موسموں پر ٹھیک ٹھیک صادق آتیں، یہ وہ زمانہ تھا جب وہ منہ اندھیرے بیدار ہو کر کھیتوں کھلیانوں کی طرف کام کرنے کیلئے نکل پڑتے تھے اور پھر سورج کی پہلی کرن کھیتوں میں ہل چلاتے اور قدرے جھکے ہوئے کسان اپنے بیل کے دوسینگوں کے درمیان سے سورج طلوع ہوتے ہوئے دیکھا کرتے تھے، منور خان غافل نے کہا ہے نا کہ
 وہ ہوا خواہِ چمن ہوں کہ چمن میں ہر صبح
 پہلے میں جا تا تھا اور باد ِ صبا میرے بعد
تب فطرت سے وہ اور فطرت ان سے بہت مانوس تھی، تب سر شام کھانا کھا لیا جاتا اور سونے کیلئے رات کا پہلا ہی پہر کام آتا۔ پھر شہروں میں تو دیر تک جاگنے کا چلن تھا مگر دیہات دیر تک جاگنے کے اس نئے عفریت سے آشنا نہ تھا لیکن تا بہ کے،سڑکیں بنیں۔ بجلی آئی، ابلاغ کے ذرائع میں اضافہ ہوا، دیہات سے شہر کی طرف ہجرتوں کا سلسلہ دراز ہوا، شہر اپنے بازو اور دامن کشادہ کرکے رفتہ رفتہ مضافات سے جاملے اور پھر قرب و جوا رکو خود میں سمیٹ لیا، بستیوں میں شہروں کے رویے پنپنے لگے اور وہاں کے فطرت شناس محنتی باسی غیر محسوس طریقے سے شہر کے سہولت پسند ماحول کے عادی ہوگئے اور اب انکی نظریں موسموں کی تبدیلی دیکھنے کیلئے آسمان کی بجائے گھر میں موجود ٹی وی سکرین کی طرف اٹھنے لگیں اور یوں فطرت سے دور ہوتے چلے گئے، خود کوئی رائے قائم کرنے کی بجائے موسمیات کے ماہرین کے رحم و کرم پر خود کو ڈال دیا پھر یہ بھی ہوا کہ ان کے سونے جاگنے کے معمولات میں بھی فرق آ گیا، سر شام کھانا اور عشاء کے فوراً بعد سو جانے والے راتوں کے دوسرے پہر تک جاگنے لگے اس پر مستزاد کہ کھیتوں کھلیانوں کی ساری سرگرمیوں کو بھی نئے زرعی آلات کے سپرد کر نے کے بعد انہیں بیل کے سینگوں کے درمیاں سے سورج دیکھنے کی ضرورت نہیں رہی، اس لئے موسمی تبدیلیاں ان کیلئے اب اچانک ہی ہونے لگیں اور موسموں نے بھی ان کی بنائی ہوئی کہاوتوں اور ضرب الامثال کی پروا کرنا چھوڑ دی۔ اور من مانی پر اتر آئے، یہ ساون کا موسم ہے جس کے اپنے رنگ ڈھنگ ہیں لمحوں میں موسم بھیگ جاتا ہے اب کے بھی برسات کے چڑھے ندی نالے سیلاب کی صورت بستیوں کو بے چراغ کرنے پر تلے ہیں اور اس پر بادل ہیں....کہ
 بس اپنی دھن میں برستا ہے برسے جاتا ہے
 اجڑنے والے دلوں کا خیال کم کم ہے