انسداد غربت: سماجی تعلقات

دنیا میں غربت کی پیمائش کرنے کا پیمانہ آمدنی کا ذریعہ مقرر ہے یعنی اگر کسی شخص کی یومیہ آمدنی 1.90 امریکی ڈالر سے کم ہے تو اُسے ”غریب“ تصور کیا جاتا ہے‘ اِس پیمانے (کسوٹی) کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی بینک کی ویب سائٹ (blogs.worldbank.org) پر 8 اپریل 2022ء کے روز چند اعدادوشمار جاری کئے گئے تھے جن میں مختلف ادوار کا جائزہ اور موازنہ پیش کیا گیا ہے مثال کے طور پر سال 2017ء میں عالمی سطح پر غربت 9.1فیصد تھی جبکہ 2018ء میں عالمی غربت کم ہو کر 8.6 فیصد رہ گئی۔ اندازہ ہے کہ سال 2021ء میں 69 کروڑ 80 لاکھ (698 ملین) لوگ جن کی تعداد عالمی آبادی کے تناسب سے 9 فیصد بنتی ہے انتہائی غربت (ایکسٹریم پاورٹی) میں زندگی بسر کر رہی ہے جبکہ دنیا کی ایک پانچویں (ون ففتھ) آبادی ایسی ہے جس کی یومیہ آمدنی 3.20 امریکی ڈالر سے کم ہے‘ عالمی آبادی کا دو پانچواں (ٹو ففتھ) حصہ یومیہ 5.50 امریکی ڈالر آمدنی پر گزر بسر کر رہا ہے خط غربت (1.90 ڈالر یومیہ آمدنی) کے لحاظ سے دنیا کے پانچ انتہائی غریب ممالک میں بھارت‘ نائیجریا‘ کانگو‘ ایتھوپیا اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔

سال 2019ء میں ورلڈ بینک نے اِنہی 5 ممالک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا کی کل آبادی کا نصب (آدھی آبادی) مذکورہ پانچ ممالک میں رہتی ہے لیکن کم سے کم ایک ایسی مثال بھی موجود ہے جسے ”انسانی تاریخ کا فخر“ قرار دیا جا سکتا ہے اور جس کے تحت ایک ملک نے اپنی آبادی کے بڑے حصے کو غربت کے چنگل سے باہر نکالا ہے۔ سال 2015ء میں عوامی جمہوریہ چین کی حکمراں جماعت ’کیمونسٹ پارٹی‘ نے غربت ختم کرنے کے عزم کا اظہار کیاچین کے صدر ژی جنپنگ (Xi Jinping) سال 2012ء میں برسراقتدار آئے اور اُنہوں نے سال 2020ء میں اعلان کیا کہ چین کے دیہی علاقوں میں رہنے والے 10 کروڑ (100ملین افراد) کو غربت سے نکال سے دیا گیا ہے۔ چین کے صدر نے بجا طور پر اِسے ’انسانیت کی تاریخ کا ایک غیرمعمولی واقعہ قرار دیا‘ بنیادی سوال یہ ہے کہ چین نے غربت کی شرح میں کیسے کمی لائی؟ چین میں انسداد غربت کے تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ اُنہوں نے ہنرمندی کی تربیت (جاب ٹریننگ)‘ نقل مکانی (مائیگریشن)‘ سماجی بہبود کے نظام میں توسیع (سوشل ویلفیئر) اور کاروباری مواقعوں (بزنس سپورٹ) کے ذریعے دیہی علاقوں میں رہنے والوں کو اپنی آمدنی بڑھانے میں مدد دی لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود بھی چین سے غربت ختم نہیں ہوئی۔

مئی 2020ء میں چین کے وزیراعظم ’لی کائی چنگ  نے کہا کہ چین میں 60 کروڑ (600 ملین) لوگ ایسے ہیں جن کی یومیہ آمدنی 140 امریکی ڈالر سے کم ہے اور یہ کم آمدنی رکھنے والا طبقہ ’کورونا وبا‘ کی وجہ سے مزید متاثر ہوا ہے۔ چین غربت کی جانچ یعنی یومیہ 1.90 ڈالر آمدنی کے پیمانے کو نہیں مانتا بلکہ اُس کا کہنا ہے کہ یومیہ 2.30 امریکی ڈالر سے کم آمدنی رکھنے والے ہر شخص کا شمار غریب کے طور پر ہونا چاہئے کیونکہ اُس کی قوت خرید انتہائی کم ہوتی ہے۔ عالمی بینک کے مطابق ”چین نے 85 کروڑ افراد کو خط غربت سے بلند کیا اور چین کی ایک فیصد سے بھی کم یعنی 0.7 فیصد آبادی خطے غربت سے کم ہے۔ ذہن نشین رہے کہ عالمی آبادی 7.753 ارب جبکہ چین کی کل آبادی 1.402 ارب ہے اور آبادی کی عالمی درجہ بندی کے لحاظ سے چین کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا قریب ساڑھے اٹھارہ (18.47) فیصد ہے اور دنیا میں سب سے زیادہ آبادی چین کی ہے جہاں فی مربع کلومیٹر 153 لوگ آباد ہیں۔ یہ اعدادوشمار کس قدر بڑی آبادی کو ظاہر کرتے ہیں اِسے سمجھنے کیلئے اگر چین کا پاکستان سے موازنہ کیا جائے تو عالمی آبادی کے تناسب سے پاکستان کی درجہ بندی 2.83 فیصد ہے اور پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ 

پاکستان میں فی مربع کلومیٹر 287 لوگ آباد ہیں‘غربت میں کمی کا ایک طریقہ تعلیم اور سماجی تعلقات بھی ہیں اِس سلسلے میں امریکہ میں ’نیچر‘ نامی جریدے نے تحقیق کی ہے جس کے مطابق کم آمدنی رکھنے والے طبقات کے بچے جو اپنے سماجی و اقتصادی پس منظر سے باہر کے لوگوں سے دوستی کرنے کے قابل ہوتے ہیں‘ اُن کی آمدنی اور کاروباری کامیابی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اِس بات کو ثابت کرنے کیلئے ہارورڈ کے ماہر اقتصادیات راج چیٹی کی سربراہی میں محققین نے ایک مخصوص طبقے کے ”معاشی روابط“ کی پیمائش کرنے کیلئے اکیس ارب سے زیادہ فیس بک دوستیوں کا تجزیہ اور موازنہ کیا‘ جس کا مطلب مختلف سماجی اقتصادی حیثیت کے لوگوں کے درمیان تعلقات ہیں انہوں نے پایا کہ کم آمدنی والے خاندانوں کے بچے جو اعلیٰ طبقے سے معاشی تعلق رکھتے ہیں اُن سے توقع کی جا سکتی ہے کہ جوانی میں ان کی آمدنی کم سے کم بیس فیصد زیادہ ہو گی‘ محققین نے لکھا کہ ”سماجی تعلق اور معاشی تعلق“ کسی بھی شخص کی زندگی میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے اور یہ انٹرنشپ اور ملازمت کے مواقع فراہم کرنے تک ہر چیز کو متاثر کرتا ہے انسداد غربت کیلئے اہل مغرب کی سوچ اور تجربات کے نتائج پاکستان کیلئے بھی اہم ہیں بالخصوص ایک ایسے ماحول میں جبکہ فیس بک اور سماجی رابطہ کاری کے وسائل عام ہیں تو شعبہئ تعلیم کے فیصلہ سازوں کو شرح خواندگی بڑھانے کے ساتھ سماجی تعلقات کی توسیع کیلئے بھی کوششیں کرنی چاہیئں اور اِس سلسلے میں اگر سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کے مابین مختلف مقابلوں کی صورت اگر رابطوں کو وسعت دی جائے تو اِس سے سماجی تعلقات کی ایک نئی دنیا دریافت کی جا سکے گی۔