پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ

خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے کے چوبیس اضلاع میں قائم 58 کٹیگری ڈی ہسپتالوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلانے کااعلان کیا ہے جن میں ضلع اپر چترال کا واحد تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال بونی سمیت ایبٹ آباد، ہری پور،مانسہرہ،ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، بنوں، کرک،لکی مروت، شمالی وزیرستان، خیبر، لوئر چترال، لوئر دیر، اپر دیر، ہنگو، کوہاٹ، اورکزئی،ملاکنڈ، سوات، شانگلہ، مردان، نوشہرہ، چارسدہ اور صوابی کے کٹیگری ڈی ہسپتال شامل ہیں‘پشاور کے چار ہسپتالوں کو نجی شعبے کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘جن میں کوہاٹی گیٹ، گاڑہ تاجک، نحقی اور متنی کے ڈی گریڈ ہسپتال شامل ہیں‘ یہ تمام سرکاری ہسپتال نئی صحت پالیسی کے تحت نجی شعبے کے اشتراک سے چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

حکومت کا موقف ہے کہ ان ہسپتالوں کا انتظام و انصرام نجی شعبے کے حوالے کرنے سے عوام کو ان کے گھروں کے قریب صحت کی بہتر سہولتیں میسر آئیں گی تعلیمی شعبے کی طرح ہیلتھ سیکٹر میں نجی شعبے کو مواقع فراہم کرنے سے حکومت کی آمدن میں بھی اضافہ ہو گا۔ان ہسپتالوں میں عوام کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے کی نگرانی صوبائی حکومت کرے گی۔یہ کوئی نیا تجربہ نہیں ہے‘ اس سے پہلے ٹی ایچ کیو ہسپتال گرم چشمہ اور مستوج کو حکومت نجی شعبے کے سپرد کر چکی ہے جس کی بدولت ان ہسپتالوں میں خدمات کی فراہمی کے معیار میں نمایاں فرق آیا ہے۔مختلف حلقوں کی طرف سے ہسپتالوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کی مخالفت کی جارہی ہے ان حلقوں کا موقف ہے کہ غریب لوگوں کو بیس روپے کی پرچی پر ابتدائی طبی امداد مل رہی تھی جو ان سے چھینی جارہی ہے۔

نجی ہسپتال میں ڈاکٹر کو دکھانے کی کم از کم فیس پانچ سوروپے ہو گی‘ جس کے غریب لوگ متحمل نہیں ہوسکتے برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ جن ہسپتالوں کو نجی شعبے کے حوالے کیا جا رہا ہے ان میں سے بیشتر کی کارکردگی انتہائی مایوس کن تھی۔وہاں ڈاکٹر، نرس،ڈسپنسر کا کوئی وجود تھا نہ ہی ادویات دستیاب تھیں۔ان میں سے بعض ہسپتالوں میں ایل ایچ ویز اور چوکیدار مریضوں کا چیک اپ کرتے تھے۔ یہ صحت مراکز طویل عرصے سے قومی خزانے پر بوجھ بن چکے تھے تاہم تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کے بجائے محکمہ صحت انہیں فعال بنانے کیلئے اقدامات کرے تو عوام کا بھلا ہوگا۔