اس وقت عالمی منظر نامے پر ایک طر ف اگر سپر پاورز کے درمیان تلخیاں نمایاں ہیں اور ایک طرف یوکرین اور روس کی جنگ نے عالمی امن کو خطرے میں ڈالا ہوا ہے تو دوسری طرف چین اور امریکہ کے درمیان تائیوان کے معاملے پر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح دنیا بھر کی توجہ ان مسائل کی طرف ہے تاہم اس سے زیادہ سنجیدہ مسئلہ دنیا بھر میں غذائی قلت کے بڑھتے خطرات اور بحران کاہے۔یہاں یہ سوال اہم ہے کہ عالمی سطح پر غذائی قلت سے نمٹنے کیلئے ترقی یافتہ ملکوں نے کیا کبھی اجتماعی طور پر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے؟ اس کا جواب ایک لفظ میں ہے، نہیں کیونکہ اگر ایساہوتا تو دنیا کی 59 فیصد آبادی غربت اور غذائی قلت کا شکار نہ ہوتی اس وقت روزانہ ہزاروں لوگ غذا ئی قلت کے باعث موت سے کا شکار ہوتے ہیں جبکہ عالمی طاقتوں کی توجہ اپنے مفادات کے حصول پر لگی ہوئی ہے۔ جہاں تک امریکہ کی بات ہے تو اس کے مفادات امن سے زیادہ جنگ سے وابستہ ہیں۔ افغانستان پر حملہ تھا، یا اس سے قبل عراق جنگ۔ ہر جگہ امریکہ کی اسلحہ ساز کمپنیوں نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عالمی سیاست میں اگر کوئی چیز مستقل ہے تو وہ مفاد ہی
ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ نے مارشل پلان کے تحت مغربی یوروپ کے ملکوں کی مدد کی تھی۔ تاہم اس وقت کوئی ایسا پلان کسی بھی عالمی طاقت کے پاس نہیں جس سے غذائی بحران کا حل نکلے۔ ایسی صورت میں اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے سربراہ ڈیوڈ بیسلی کے اس انتباہ کو ہلکے پن سے لینا ٹھیک نہیں ہے جو انہوں نے غذائی بحران کے بارے میں دیا ہے۔ ڈیوڈ بیسلی کا کہنا ہے کہ یہ ایسا بحران ہوگا جو ہم نے زندگی میں نہیں دیکھا۔ان کا کہنا ہے کہ یوکرین جنگ سے پہلے کے حالات کے مقابلے موجودہ حالات بدتر ہوئے ہیں،کیونکہ جنگ سے پہلے کے مقابلے اب مزید 9 کروڑ 90 لاکھ لوگ
غذائی بحران کا شکار ہیں۔ اس کے باوجود اچھی اقتصادی پوزیشن والے ممالک فراخ دلی کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں۔ ڈیوڈ بیسلی کی اس بات میں وزن ہے کہ یہ ایسا بحران ہوگا جو ہم نے زندگی میں نہیں دیکھا۔ اندیشہ اس بات کا ہے کہ یہ غذائی بحران وسیع ہو،کیونکہ کورونا وائرس کی وجہ سے زیادہ تر ملکوں کی اقتصادی حالت خستہ ہے، وہ پہلے ہی بے روزگاری، مفلسی اور مہنگائی سے نبردآزما ہیں توان سبھی لوگوں کو خوراک کیسے فراہم کرا پائیں گے جن کے پاس اتنی رقم نہیں کہ دو وقت کی روٹی کھا سکیں۔ جنوبی سوڈان اور صومالیہ جیسے ممالک سے ہٹ کر وہ ممالک بھی اس معاملے میں مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں جو کسی وقت دوسرے ممالک کو غذائی اجناس برآمد کرتے تھے۔