یوم عاشور: ہے ہماری درس گاہ‘ کربلا


تاریخ انسانی میں بہادر اور اقدار پر ثابت قدم رہنے والوں  نے ہمیشہ مشکل راستوں کا انتخاب کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ’کربلا‘ ماضی سے حال تک‘ ایسے ہی مشکل سفر کی داستان ہے جس میں علم و عمل کے لاتعداد امکانات پوشیدہ (پنہاں) ہیں۔ سن اکسٹھ ہجری‘ کربلا (عراق) کے مقام پر امام حسین رضی اللہ عنہ اور آپؓ کے اہل و عیال‘ رفقا نے جن مصائب و آلام کو برداشت کیا ان کا درد‘ غم اور یاد مٹائی نہیں جا سکتی۔ واقعہ کربلا صرف سانحہ نہیں بلکہ استقامت کی عملی مثال ہے۔ حضرت امام حسین  رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقا کی جانب سے دی گئی عظیم قربانیاں میں اُن لوگوں کیلئے اسباق پوشیدہ ہیں جو ”باوقار زندگی“ گزارنے کا عزم رکھتے ہوں۔ کربلا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے اور نیکی و بدی کی قوتوں کے درمیان لڑائی تھی بلکہ یہ راستبازی اور بدی کے درمیان فیصلہ کن جنگ تھی۔ یہ ’حق‘ اور ’باطل‘ کے درمیان فرق کرنے کی واضح مثال بھی ہے۔ اِمام حسینؓ کی قربانی اُس حکمران کے خلاف تھی‘ جو ایک ایک کر کے اسلامی طرز حکمرانی اور اسلام کے سماجی و معاشی نظام کے بنیادی اصولوں تبدیل کر رہا تھا اور چاہتا تھا کہ اپنی خواہشات اور تخیلات سے اس نظام پر حکومت کرنے اور چلانے کی کوشش کرے چنانچہ امام حسین رضی اللہ عنہ ظلم‘ ناانصافی اور استبداد کے خلاف ڈٹ گئے۔ انہوں نے اپنے خون اور اپنے پیاروں کی قربانیوں سے اسلام کی حقیقی روح کو زندہ کیا اور حاکم وقت کے مذموم عزائم کو ناکام بنا دیا۔امام حسین علیہ السلام نے کربلا کا معرکہ اپنی بے پایاں جرأت اور ظالم کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے کے ناقابل تسخیر عزم کے ساتھ کیا یقینا ان کی جنگ اقتدار کے لئے نہیں تھی بلکہ وہ بیداری کی مہم تھی تاکہ لوگ اپنے حقوق اور فرائض سے آگاہ ہو سکیں کیونکہ یہ وہ دور تھا جب عوام و خواص کی اکثریت اخلاقی زوال کا شکار تھی اور اس حکومت کے خلاف اپنے چنیدہ ساتھیوں کے ہمراہ غیر متزلزل ایمان اور استقامت کے ساتھ ظالمانہ حکومت کا مقابلہ کرتے ہوئے اسلام کے جھنڈے کو گرنے نہیں دیا اور تا ابد اسے تھامے اور بلند کرتے رہیں گے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کی استقامت و شہادت ”شاندار فتح“ ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہمارے دلوں میں وہ زندہ ہیں۔ آپؓ مظلوموں کے لئے عزت‘ اُمید کا استعارہ اور رہنمائی کا ستارہ ہیں اور ضرورت اِس امر کی ہے کہ کربلا سے ہدایت و رہنمائی لیتے ہوئے اپنے اندر تبدیلی لائی جائے‘ جب تک ہم اپنے آپ کو اندر سے تبدیل نہیں کریں گے تب تک عزت‘ امن اور خوشحالی نہیں آئے گی۔کربلا کا سانحہ متعدد اسباق کا مجموعہ اور یقینی طور پر روزمرہ مصائب و مسائل کے حل کے لئے لائحہ عمل (روڈ میپ) کا کام کر سکتا ہے جس کا بنیادی نکتہ توحید اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے غیر مشروط محبت ہے۔ کربلا احساس کا نام ہے جس کے ذریعے رب العالمین کی وحدانیت کے اقرار میں مدد ملتی ہے۔ کربلا کی درسگاہ کا بنیادی سبق یہ ہے کہ یہ کم از کم نتائج کی فکر سے بے نیاز کر دیتی ہے۔معرکہئ کربلا میں امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ نہایت احترام اور برابری کا سلوک کیا۔ سیاہ فام افریقی غلام کے ساتھ بھائی جیسا سلوک مثالی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ جون بن حویؓ حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ کے غلام تھے اور کربلا میں امام حسینؓ کی طرف سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ جب سانحہئ کربلا کی طرف دیکھا جائے تو اپنے مصائب بہت معمولی نظر آتے ہیں۔ کربلا ہمیں حوصلہ دیتی ہے۔ کربلا شرافت کا نام ہے جس کی وجہ سے دشمن کی فوج کا کمانڈر ’حر بن یزید ریاحی‘ حسینی کیمپ میں شامل ہوا۔ جناب ِحر امام حسین ؓ کی شرافت اور اصناف سے اس قدر متاثر ہوا کہ اُس نے مرتبے یا انجام کی پرواہ کئے بغیر امام حسینؓ کی قربت اختیار کی اور اس کی ایک وجہ امام حسینؓ کا انتہائی محبت اور احترام سے پیش آنا بھی تھا۔ سانحہئ کربلا نے نہ صرف مسلمانوں کو رہنمائی دی بلکہ غیر مسلموں کو بھی یکساں متاثر کیا ہے۔ یہ اقتدار حاصل کرنے یا کسی علاقے کو فتح کرنے کی جنگ نہیں تھی۔ کربلا میں امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے عزیز و اقارب کی جانب سے پیش کی گئی بے مثال قربانی ہر زمانے اور زمانہ کی پوری انسانیت کی مشترکہ میراث ہے۔ مہاتما گاندھی نے کہا ”میرا عقیدہ ہے کہ اسلام کی ترقی اس کے ماننے والوں کی طرف سے تلوار کے استعمال پر منحصر نہیں ہے بلکہ حسینؓ‘ عظیم ولی کی عظیم قربانی کا نتیجہ ہے۔“ اسی طرح چارلس ڈکنز نے کہا ”اگر امام حسینؓ دنیاوی ضروریات کے لئے لڑے تو مجھے اِس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ وہ اپنے ہمراہ خواتین کو کیوں لے کر گئے؟ درحقیقت امام حسین کی قربانی خالصتاً اسلام کے لئے تھی۔“ رابندر ناتھ ٹیگور نے لکھا کہ ”انصاف اور سچائی کو زندہ رکھنے کے لئے فوج یا ہتھیاروں کی بجائے جانوں کی قربانی دے کر کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے‘ بالکل وہی کامیابی جو امام حسینؓ اُور آپؓ کے رفقا نے حاصل کیا۔“ پنڈت جواہر لعل نہرو نے مخلصانہ خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ”امام حسینؓ کی قربانی تمام گروہوں اور برادریوں کے لئے ہے اور یہ راہ راست کی ہمیشہ زندہ رہنے والی مثال ہے۔“ کربلا کے پیغام کی عالمگیریت (وسعت) سربستہ راز ہے جس کی مختلف جہتیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کربلا تاریخ کے ساتھ سفر کرتے ہوئے آخری وقت تک گونجتا رہے گا۔ جعفر الصادق‘ اِمام جعفر صادق ابن اِمام باقر رضی اللہ عنہ (ولادت: 702ء۔ شہادت: 765ء) کے بقول ”کربلا (سن اکسٹھ ہجری) کے بعد‘ تاقیامت ہر دن عاشور اور ہر زمین کربلا ہے۔“ یہ ثابت کرنے کا وقت آ گیا ہے کہ ہم امام حسینؓ کے پیروکار ہیں اور ہمارا رہنما ایسا حسینؓ ہے جو انصاف پسند ہے۔ ”وہ دونوں ہاتھ تھے الف انتقام کے …… وہ دو الف شریک ازل سے امام کے …… ہنگام جنگ تیغ و سپر تھام تھام کے …… اعدأ سے لیں قصاص شہ تشنہ کام کے …… بے ان کے داد خواہ کبھی معترف نہ ہوں …… انصاف نصف ہووے جو یہ 2 الف نہ ہوں۔ (مرزا سلامت علی دبیر)