آتشزدگی کسی بھی وجہ سے ہو‘ اِس سے متاثر ہونے والوں کو نہایت ہی مختلف اور نہایت ہی خصوصی نگہداشت کے ساتھ علاج معالجے کی ضرورت ہوتی ہے‘ جس کی فراہمی کے لئے خصوصی قانون سازی زیرغور ہے۔ اِس سلسلے میں خیبرپختونخوا حکومت نے ”برن ایکسیڈنٹ پریوینشن اتھارٹی“ کے قیام کو شروع دن سے قانونی تحفظ دینے کا فیصلہ کیا ہے جس سے متعلق پیشرفت سے آگاہ ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار کے بقول ”مشاورت سے منصوبہ بندی کے مراحل تیزی سے طے ہو رہے ہیں‘ جس کے بعد اِس بات کو ”یقینی“ بنایا جا سکے کہ نہ صرف سرکاری بلکہ نجی عمارتوں میں آگ بجھانے والے آلات نصب کئے جائیں جبکہ تعمیرات بالخصوص کثیرالمنزلہ تعمیرات میں آگ لگنے کی صورت محفوظ باہر نکلنے کے راستوں کا انتظام بھی اِسی قانون سازی کے ذریعے لازم قرار دیا جائے گا۔“ اِس مرحلہئ فکر پر ضمنی موضوع یہ بھی توجہ طلب ہے کہ قانون سازی سے زیادہ اہم قانون پر عمل درآمد ہوتا ہے اور جہاں تک آتشزدگی سے بچاؤ کے لئے انتظامات و اقدامات کی بات ہے تو اِس معاملے سے متعلق اگرچہ کوئی خصوصی (الگ) قانون تو موجود نہیں لیکن ایسے قواعد (بلڈنگ کوڈز) موجود ہیں‘ جن کی روشنی میں صرف وہی تعمیراتی نقشے منظور کئے جاتے ہیں‘ جن میں آتشزدگی یا دیگر کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی بنیادی سہولیات دستیاب ہوں لیکن ترقیاتی امور بارے قواعد پر خاطرخواہ سختی کے ساتھ عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آتا۔
اطلاعات کے مطابق قانون ساز ایک خصوصی محکمہ (اتھارٹی) قائم کرنے کی راہ ہموار کر رہے ہیں جس کے بعد نجی و کمرشل عمارتیں جیسا کہ شاپنگ مالز اور سرکاری و نجی ملکیتی عمارتوں کے مالکان کے لئے لازم ہوگا کہ وہ کم سے کم بنیادی سہولیات و آلات نصب کروائیں۔ خیبرپختونخوا کے سبھی چھوٹے بڑے شہروں بالخصوص پشاور کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ نئی بستیاں اور تجارتی مراکز آباد ہو رہے ہیں لیکن اِن کی تعمیر میں حفاظتی پہلوؤں (انتظامات) کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی جاتی یا پھر ایسی منصوبہ بندی صرف تعمیراتی نقشہ جات کی حد تک دکھائی دیتی ہے۔ بنیادی بات لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے جس کے لئے محکمہئ صحت اور اراکین صوبائی اسمبلی کے درمیان کم سے کم تین مشاورتی نشستوں کا انعقاد ہو چکا ہے اور مذکورہ دونوں فریق چاہتے ہیں کہ ”مفاد عامہ“ میں اِس قسم کی قانون سازی جلد از جلد اور جامع سے جامع تر ہونی چاہئے یہی وجہ ہے کہ تین اجلاسوں میں صورتحال کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا ہے اور مزید غوروخوض بھی کیا جائے گا۔ اگر حسب ِتوقع اور تفصیلات مذکورہ قانون (برن ایکسیڈنٹ پریوینشن اتھارٹی) کا قیام عمل میں آ جاتا ہے تو اِس سے ایک دیرینہ مطالبہ اور نہایت ہی اہم کمی پوری ہو جائے گی۔
قانون کی منظوری سے مارکیٹوں‘ کثیرالمنزلہ اور نجی عمارتوں کے مالکان کے لئے خودکار طریقے سے دھواں سونگھ کر خبردار (آلارم) کرنے والا آلہ ”سموک ڈٹیکٹر“ اور آتشزدگی کی صورت کسی عمل سے اخراج کے بارے وہاں کے مکینوں کو مطلع کرنا لازمی ہو جائے گا۔ حکام کا کہنا ہے کہ قانون منظور ہونے کے بعد عمارتوں میں آتشزدگی کے راستے یا راہداریاں بنانا لازم ہو گا جس کے ذریعے ہنگامی حالات کی صورت ”محفوظ انخلأ“ ممکن ہو جائے گا۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ مہنگی ترین عمارتوں اور پلازوں میں آگ بجھانے والے آلات نصب نہیں ہوتے اور نہ ہی ایسی ہدایات آویزاں کی جاتی ہیں جو آتشزدگی یا دیگر ایسی ہنگامی حالات میں عمارت سے انخلأ میں مددگار ثابت ہو۔ فی الحال عمارتوں میں ایسے انتظامات نہیں ملتے جس کی وجہ سے معمولی آتشزدگی کی صورت میں زخمی ہونے والوں میں بڑی تعداد جلنے کے زخموں کا شکار ہونے والوں کی ہوتی ہے‘ جو اموات کا باعث ہونے کے علاؤہ زندہ بچ جانے والوں کی صورت مختلف پیچیدہ بیماریوں کا باعث ہوتی ہیں۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ آتشزدگی کے وقت افراتفری اور بھگڈر کی وجہ سے خواتین خانہ کو جلنے کی چوٹیں زیادہ آتی ہیں اور اِس سلسلے میں اعدادوشمار حیران کن ہیں کہ آتشزدگی سے زخمی ہونے والے ہر چار افراد میں تین خواتین ہوتی ہیں۔ خواتین گھروں میں باورچی خانے (کچن) میں زیادہ وقت گزارتی ہیں جہاں گیس چولہا یا سلنڈر پھٹنے کے واقعات تواتر سے پیش آتے ہیں لیکن خیبرپختونخوا کے مرکزی ہسپتالوں میں جلے ہوئے مریضوں کو زیادہ بڑی تعداد میں طبی سہولیات فراہم نہیں کی جا سکتیں۔
مذکورہ قانون سازی (برن ایکسیڈنٹ پریوینشن اتھارٹی کے قیام) میں یہ بات بھی شامل ہے کہ طبی و معاون طبی عملے کو جلے ہوئے مریضوں کا علاج کرنے کے لئے خصوصی تربیت فراہم کی جائے۔ اِس سلسلے میں خیبرپختونخوا کے محکمہئ صحت نے ’خیبر میڈیکل یونیورسٹی‘ کے ساتھ مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کئے ہیں جس کے تحت نرسوں کو گریجویشن مکمل کرنے کے بعد ایک سال کا ڈپلومہ دینے کی پیشکش کی گئی ہے۔ اس پیشرفت سے (توقع ہے کہ) خواتین مریضوں کو جلنے کی صورت دیکھ بھال اور علاج معالجے کی بہتری سہولیات میسر آئیں گی۔ خیبرپختونخوا میں جلے ہوئے مریضوں کا علاج کرنے والی ’خواتین ٹرینی میڈیکل آفیسرز (ٹی ایم اوز)‘ کی بڑی تعداد بھی موجود ہے جو خواتین کے علاج معالجے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں اور یہ بہت ہی حوصلہ افزا بات ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران ایک لاکھ ستر ہزار کسی نہ کسی درجے جلے ہوئے مریضوں نے ’حیات آباد میڈیکل کمپلیکس‘ (نامی ہسپتال) سے علاج معالجے کے لئے رجوع کیا جس میں دو تہائی خواتین اور بچے شامل تھے۔
قابل ذکر ہے کہ امریکہ کے تعاون سے سال دوہزاراٹھارہ میں فعال (آپریشنل) ہونے والے ایک سو بیس بستروں پر مشتمل ’برن سنٹر‘ کے مکمل (تمام) اخراجات صوبائی حکومت ادا کر رہی ہے اور مذکورہ سنٹر میں جھلسنے والے مریضوں کے لئے ساٹھ بستر اور پلاسٹک سرجری کے لئے اتنی ہی تعداد میں بستروں کا انتظام کیا گیا ہے۔ اِس کے علاؤہ آٹھ بستروں پر مشتمل خصوصی نگہداشت کا مرکز (آئی سی یو) اور آٹھ ہی بستروں پر مشتمل ’ہائی ڈیپنڈنسی یونٹس‘ بھی فعال ہیں لیکن فیصلہ ساز چاہتے ہیں کہ مرکزی شہروں کے ہسپتالوں سے رجوع کرنے والے مریضوں کی تعداد (رش) کم ہو اور بالخصوص جلے ہوئے زخمی مریضوں کا علاج دیہی علاقائی سطح پر ہی ہونا چاہئے۔ پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں علاج کے لئے لائے گئے مریضوں کے تین سالہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان‘ ٹانک‘ وزیرستان‘ چترال‘ ایبٹ آباد‘ سوات اور دیر سے تھا اور اگر اِن علاقوں میں جلے ہوئے مریضوں کی موجود سہولیات میں اضافہ کیا جائے تو اِس سے پشاور یا پنجاب کے ہسپتالوں پر مریضوں پر دباؤ کم ہوگا۔
فی الوقت مفتی محمود ٹیچنگ ہسپتال ڈی آئی خان اور سوات میں بیس بستروں پر مشتمل ایک وارڈ مقامی سطح پر جلے ہوئے مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے فعال ہے تاہم زیادہ پیچیدہ زخمی مریضوں کو پشاور بھیجا جاتا ہے۔ اگر ہر ضلعی ہسپتال میں ’برن یونٹس‘ قائم کئے جائیں تو اِس سے دیرینہ کمی پوری ہو گی۔ پشاور کے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں قائم مرکز خیبرپختونخوا میں عالمی معیار کی ایسی واحد سہولت ہے جسے ”کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان“ نے سالانہ اکیس ڈاکٹروں کی اعلیٰ تربیت کے لئے مختص کر رکھا ہے اور اِس کی حیثیت ایک اعلیٰ تدریسی علاج گاہ کی ہے۔ ضرورت ایک ایسا لائحہ عمل وضع کرنے کی بھی ہے جس میں تربیت مکمل کرنے والے اور امتحانات کے لئے اہلیت (کوالیفائی) کرنے والے ڈاکٹروں کو ضلعی ہسپتالوں کے ساتھ طبی تدریسی اداروں میں بھی تعینات کیا جائے تاکہ جلنے اور اِس سے صدمے کا شکار ہونے والے مریضوں کے فوری علاج کو یقینی بنایا جا سکے۔