نئے مالی سال (دوہزاربائیس تیئس) کے دوران پشاور کی مقامی حکومتوں (بلدیاتی اداروں) کو 19ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ تفصیلات کے مطابق اِس خطیر رقم میں سے ترقیاتی (تعمیراتی) عمل کیلئے جو کچھ باقی بچے گا‘ وہ ضرورت کے مقابلے میں کم ہے! کیونکہ تنخواہوں کی ادائیگی کے بعد صرف 3.47 ارب روپے ترقیاتی عمل کے لئے باقی بچیں گے اور تصور کیا جا سکتا ہے کہ سیاسی ہو یا بلدیاتی طرزحکمرانی کس قدر مہنگا ہو چکا ہے! رواں مالی سال کے دوران تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشنز (ٹی ایم ایز) کو 68ملین (6 کروڑ 80 لاکھ) روپے جاری کئے جائیں گے۔ اِس تقسیم میں پشاور شہر کو اکتیس کروڑ ساٹھ لاکھ (316 ملین) روپے‘ ٹی ایم اے پشتخرہ کو 80ملین (8 کروڑ) روپے‘ ٹی ایم اے شاہ عالم کو 72ملین (7 کروڑ 20لاکھ) روپے‘ ٹی ایم اے چمکنی کو 83ملین (8 کروڑ 30لاکھ) روپے‘ بڈھ بیر کو 71ملین (7 کروڑ 10لاکھ روپے) اور ٹی ایم اے متھرا کو 72 ملین (7کروڑ 20لاکھ) روپے جاری کئے جائیں گے۔ ترقیاتی فنڈز کی مد میں پشاور شہر کے لئے مجموعی طور پر 918ملین (91 کروڑ 80 لاکھ) روپے اور شہر کے گاؤں اور محلہ کونسلوں کے لئے 612ملین (61 کروڑ 20 لاکھ) روپے دیئے جائیں گے۔
پشاور کی ترقیاتی ضروریات شہری و دیہی علاقوں کے لئے الگ الگ ہیں اور اِنہیں ایک جیسی نظر سے دیکھنا بھی مسئلہ ہے۔ مثال کے طور پر اندرون شہر (تحصیل پشاور سٹی) کی حدود میں قریب نوے فیصد گلیاں کوچے‘ سڑکیں اور نکاسیئ آب کی نالیاں نالے پختہ ہیں جنہیں ہر چند برس بعد اُکھاڑ کر دوبارہ تعمیر کیا جاتا ہے جبکہ پشاور شہر کی ضرورت نکاسیئ آب کے نظام کی توسیع اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے ٹیوب ویلوں پر انحصار کم کرنا ہے۔ اِس سلسلے میں پشاور کے اطراف میں بنے پانی کے ذخائز (ڈیموں) سے کشش ثقل (گریوٹی فلو) پر پانی کی فراہمی ترجیح ہونی چاہئے جس کا ایک تجربہ جاپان حکومت کے مالی و تکنیکی تعاون سے ایبٹ آباد شہر میں کیا گیا اور یہ کامیابی سے جاری ہے۔ پشاور کے ضلعی فیصلہ سازوں کو پہلی فرصت میں ایبٹ آباد کی ’گریوٹی فلو سکیم‘ کا مطالعہ کرنا چاہئے جو اپنی مثال آپ ہے اور اگرچہ اِس منصوبے کو چند یونین کونسلوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تخلیق کیا گیا تھا لیکن بعدازاں توسیع اور وقفوں سے پانی فراہمی کے ذریعے اِسے نصف سے زیادہ ایبٹ آباد شہر کو پانی فراہم کیا جا رہا ہے تاہم گریوٹی فلو سکیم میں چند تکنیکی خرابیاں بھی ہیں جو پانی کو ذخیرہ کرنے اور اِس کی تطہیر کے عمل سے متعلق ہیں اور جب بلدیاتی نمائندے اِس کا مطالعہ کرنے جائیں گے تو اُنہیں خود وہ سبھی غلطیاں (خامیاں) نظر آ جائیں گی جس کی وجہ سے پانی کا اخراج اور معیار متاثر ہیں۔
پشاور شہر اور پشاور کی دیگر 6 تحصیلوں کی ترقیاتی ضروریات میں زمین آسمان کا فرق ہے اور یہ فرق آمدنی کا بھی ہے اور اگر صوبائی حکومت بلدیاتی فیصلہ سازوں کے ساتھ مل کر ترقیاتی وسائل کی تقسیم کے لئے آمدنی کا پیمانہ وضع کرے یعنی جس تحصیل کی آمدنی زیادہ ہے وہاں ترقیاتی کام بھی اُسی تناسب سے زیادہ ہونے چاہیئں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پشاور شہر کی تحصیل سے حاصل ہونے والی آمدنی زیادہ لیکن یہاں ترقیاتی کاموں کے لئے مختص وسائل نسبتاً کم شرح سے جاری کئے جاتے ہیں۔ دیہی علاقوں پر مشتمل تحصیلیوں کی آمدنی زیادہ لیکن وہاں ترقیاتی ضروریات زیادہ ہیں تو دانشمندی اِسی میں ہے کہ دستیاب مالی وسائل کو غیرترقیاتی اخراجات کی بجائے ترقیاتی عمل اور بالخصوص ایسے ترقیاتی کاموں پر خرچ ہونا چاہئے جن سے آمدنی ممکن ہو۔ پائیدار ترقی کا تصور یہی ہے کہ اِس میں ترقیاتی عمل آمدنی کا ذریعہ ہوتا ہے۔اگر کوشش کی جائے تو یہ کوئی مشکل مرحلہ نہیں بلکہ اس حوالے سے کئی ممالک میں ایسے ماڈل موجود ہیں جن سے استفادہ کیا جاسکتاہے کہ کس طرح ایک علاقے کے وسائل کو منظم انداز میں اسی علاقے کی ترقی کیلئے استعمال میں لائے جائیں اور ایسے منافع بخش منصوبے سامنے لائے جائیں کہ جن کی مدد سے یہ کام آسان ہو سکے۔ اس مقصد کیلئے خاص طور پر مربوط منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ ایک تو ہر علاقے میں ترقی کاسفر یکساں طور جاری رہے تو دوسری طرف اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچیں۔یہاں پر اس بنیادی نکتے کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ بلدیاتی نظام کو مستحکم اور فعال بنانے کیلئے باقاعدگی کے ساتھ اس کے انتخابات کا انعقاد ہو اور پھر مقامی حکومتوں کے بننے کے بعد اسے بھر پور انداز میں اپنا کام کرنے کا موقع ملے تاکہ اس کے ثمرات سے عوام مستفید ہوسکیں۔