وفاقی تعلیمی بورڈ اور آغا خان ایجوکیشن بورڈ نے میٹرک کے سالانہ امتحانات کے نتائج کا اعلان کر دیا ہے۔پوزیشن ہولڈر طلبا وطالبات کے نتائج سوشل میڈیا پر شیئر کئے جارہے ہیں۔ابھی پشاورتعلیمی بورڈ سمیت صوبے کے آٹھ تعلیمی بورڈوں کے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے نتائج کا اعلان ہونا باقی ہے۔اب تک کم نمبر آنے پر صوبے میں خودکشی کرنے والے طلبا کی تعداد تین ہو گئی ہے، تمام بورڈوں کے مجموعی نتائج آنے کے بعد خودکشی کے واقعات میں کئی گنا اضافے کا خدشہ ہے۔یہ افسوسناک واقعات گزشتہ ایک عشرے سے رونما ہو رہے ہیں ان کے تدارک کے لئے محکمہ تعلیم، والدین، اساتذہ اور سول سوسائٹی کی طرف سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔سوشل میڈیا پر ایک صارف نے دلچسپ پوسٹ شیئر کی ہے کہتے ہیں کہ ان کے بیٹے نے سب سے کم 33 فیصد نمبر لے کر میٹرک پاس کیا۔ تو انہوں نے انعام کے طور پر اسے موٹر سائیکل لے کر دیدی۔
وہ اس بات پر خوش ہے کہ اس کے بیٹے کے نمبروں کی وجہ سے کسی غریب طالب علم کی دل شکنی نہیں ہوئی۔سوشل میڈیا پر اپنی کامیابیوں کو شئیر کرنا اور خوشی کا اظہار کرنا ہر شہری کا حق ہے لیکن نمبر گیم کی اس مسابقت کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی دل شکنی ہوتی ہے کم نمبر لینے والوں کو والدین، اساتذہ، یار دوستوں اوررشتہ داروں کی طرف سے طعنوں اور کڑوی کسیلی باتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ دلبرداشتہ ہو کر اپنی زندگی کا چراغ گل کرنے پر تل جاتے ہیں۔وہ دریا میں چھلانگ لگا کر، گلے میں پھندا ڈال کر یا کنپٹی پر گولی مار کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں، معروف ماہر نفسیات پروفیسر ڈاکٹر خالد مفتی کے مطابق گردوپیش کے شدید دباؤ کی وجہ سے انسان ڈپریشن میں چلا جاتا ہے اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت وقتی طور پر جواب دیتی ہے۔
یہ کیفیت پندرہ سے بیس منٹ تک جاری رہتی ہے اور اس کے آثار انسان میں واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس حالت میں والدین، رشتے دار اور دوست احباب اسے دلاسہ دیں اور باتوں میں الجھائے رکھیں تو اس کی ذہنی حالت معمول پر آ سکتی ہے اور وہ خود کشی سے باز آسکتا ہے۔والدین کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ کسی امتحان میں زیادہ نمبر حاصل کرنا عملی زندگی میں کامیابی کی ضمانت نہیں ہوتی۔آئن سٹائن جیسے سائنسدان بھی پڑھائی میں اوسط سے بھی کم درجے کے تھے مگر دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ علامہ اقبال جیسا فلاسفر بھی انڈین سول سروس کے امتحان میں فیل ہوا تھا۔آج دنیا ان کے افکار پر تحقیق میں مصروف ہے۔ ہر بچے کو خدا نے مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ان مخصوص صلاحیتوں کو برؤے کار لانے کا اسے موقع فراہم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔نوجوان نسل کی طرف سے خودکشی کرنے کے تشویش ناک واقعات کا حکومت، ماہرین صحت اور ماہرین تعلیم کو فوری اور سنجیدہ نوٹس لینا چاہئے تاکہ قوم کے مستقبل کے معماروں کو ہلاکت سے بچایا جاسکے۔