ساون ہر چند اب کے بادلوں سے لدا پھندا آیا ہے اور موسم کی حدت کو بڑی حد تک روکے ہوئے بھی ہے لیکن موسمی بیماریوں میں بھی شدت آ گئی ہے اس موسم میں ملیریا اور ٹا ئیفائیڈ کے امکانات تو بڑھ جاتے ہیں لیکن گزشتہ کچھ برسوں سے ڈینگی بخاربھی انکی ٹیم میں شامل ہو گیا ہے جسکی شدت میں کووِڈ کی طرح کمی آئی تھی مگر پھر سے فعال ہو گیا ہے اور خبریں ہیں کہ کو وِڈ بھی ذرا سا سستانے کے بعد آنکھیں دکھانے لگا اسلئے اب اطراف سے کچھ بہت اچھی خبریں اس لئے بھی نہیں مل رہیں بخار اور ایک سو چھ درجے تک پہنچنے والا بخار مریض کو توڑ کر رکھ دیتا ہے، کمر درد سے شروع ہونیوالے اس بخار کی شدت مریض کو مسلسل سر درد میں مبتلا رکھتی ہے کو وڈ میں تو ذائقہ ختم ہو جاتا تھا اس بخار میں خراب ہو جاتاہے جسکی وجہ سے مریض کا کھانے پینے کو جی نہیں چاہتا اور پھر اسکا انجری لیول گرنا شروع کر دیتا ہے، نقاہت کے ہاتھوں مریض کیلئے دو قدم چلنا مشکل ہو جاتا ہے اور پلیٹ لس لاکھوں سے ہزاروں میں آ جاتے ہیں، یہ سب علامات ڈینگی بخار کی ہیں مگر پھر بھی شروع شروع میں لیبارٹری ٹسٹ میں ڈینگی بخار نیگٹیو آ تا ہے۔
مجھے اس لئے بھی اس کی تفصیل معلوم ہے کہ یکے بعد دیگرے میرے بیٹے ذی شان،ابتسام اور پوتے ابتہاج اس کا شکار ہوئے اور میں ایک ناقابل بیان کڑے امتحان سے گزرا ڈاکٹر انتخاب عالم کی محبت کہ مریض کے علاج کے ساتھ ساتھ میری ڈھارس بھی بندھاتے رہے اسی طرح معروف شاعر اوردوست عزیز ڈاکٹر اعجاز حسن خٹک بھی مسلسل رابطہ میں رہے اور بہت سہولتیں بھی ارزاں کرتے رہے، اسی طرح مہربان معالج دوست ڈاکٹر صلاح الدین مرحوم کے برخوردار ڈاکٹر ارسلان بھی ساتھ ساتھ رہے،اکوڑہ خٹک تو اس بخار کا شاید مرکز رہا اور گزشتہ ایک ماہ کے اندر وہاں شاید ہی کوئی ایک گھر ایسا ہو جہاں دو تین سے کم مریض اس بخار میں تڑپتے رہے ہیں، یہ سب ساون کے دنوں میں ہوا شاید کسی ستم ظریف نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ یہ بھی شئیر کی اس بار چودہ اگست انگریزوں سے نجات کے ساتھ ساتھ نا مہربان ساون سے بھی نجات کا دن ہو گا انہی دنوں دکھ بھری یہ خبر بھی ملی کہ ممتاز عالمی شہرت یافتہ شاعر مرحوم سجاد بابر کی بیوہ ناصرہ سجاد بابر بھی گزر گئیں وہ میونسپل کالج پشاور کی ریٹائر پرنسپل تھیں اور بلا کی محنتی اور مذہبی خاتون تھیں، میلاد کی محافل بپا کرتیں اور اپنی بچیوں کے ہمراہ بہت عمدہ ثناء خوانی کیا کرتی تھیں۔
سجاد بابر کے دوستوں کے ساتھ خصوصی محبت تھی سعودی عرب میں بھی ایک زمانہ رہیں اور سجاد بابر کے شاعر دوست ان کی میزبانی کی بہت تعریف کیا کرتے جن میں احمد فراز اور احمد ندیم قاسمی بھی شامل تھے۔ سجاد بابر کی بیماری کے دوران ان کی دیکھ بھال کی ساری ذمہ داری ان پر تھی کیونکہ ان کی اولاد نرینہ نہیں تھی اور تینوں بیٹیاں شہر سے باہر اپنے گھروں میں تھیں اور ان کی خواہش کے باوجود ان کے ہاں رہنا انہیں اچھا نہیں لگتا تھا کراچی کچھ دن گزارے مگر پھر لوٹ آئے، جب میں بیمار پرسی کیلئے جاتاتو بطور خاص انہیں کہتا کہ اس پیرانہ سالی اور بیماری میں ان کیلئے سجاد بابر کا خیال رکھنا بہت مشکل ہے مگر وہ خوددار خاتون نہ مانی اور تن تنہا ان کی بیماری کو جھیلا جب دوست مہرباں میجر عامر نے سجاد بابر کے علاج کا بیڑا اٹھایا اور ان کو اسلام آباد بلایا تو مجھے اس خوددار کپل کو قائل کرنے کا مشکل ٹاسک سونپا‘مجھے انکی رحلت کے ساتھ ہی سجاد بابر اور ان کی بیماری کے دن یاد آئے اور میں دیر تک ان دنوں میں کھویا رہا مجھے ان دنوں کے وہ سارے قصے کہانیاں دوستوں کی محبتیں،رویے اور جانے کیا کچھ یاد آ تا اور میری آنکھوں میں دھندلاتا رہا۔
سجاد بابر صحیح معنوں میں پوری اردو دنیا میں پشاور کے حوالے سے پشاور کے شعر و ادب کی پہچان تھے ہر چند ان کا تعلق پشاور سے ہے مگر وہ پوری اردو دنیا کیلئے ایک معتبر اور قابل احترام شاعر ہیں، سجاد بابر اشیاء کو جس طرح دیکھتے ہیں اور جس سہولت سے اشیاء ان پر اپنا آپ منکشف کرتی ہیں اس عطائے ایزدی کیلئے تخلیق کار ترستے ہیں اور اس ہنر کو مانگتے مانگتے کمریں کوزہ ہو جاتی ہیں مگر سجاد بابرکو تو اس سعادت کیلئے خدائے بخشندہ نے اوائل عمر میں چن لیا تھا‘چنانچہ اس کاشعری مجموعہ راہرو ہو یا مراحل پڑھتے ہوئے سنجیدہ قاری پر ہر صفحہ پر حیرتوں کا ایک جہان آباد ہے‘سجاد بابر کی تخلیق قوت کی کرشمہ سازی دیکھئے کہ جب وہ دبئی کے تپتے جھلستے صحراؤں میں اپنے فرائض منصبی کے دوران دھوپ کی شدت اور حدت سے نبرد آزما تھاتو اپنے سر پر اپنے شعر کی چھتری تان لیتا تھا۔یہ سارے حوالے درست اور معتبر مگر اپنے اردو شعر سے ایک زمانے کو اپنا اسیر بنانے والے سجاد بابر جن دنوں بیماری کے باعث ادبی محفلوں میں شریک نہیں ہو رہے تھے، ایک سال کی ایک سرد شام کی یخ بستہ ہوا نے انہیں مضمحل کر دیا تھا۔
وہ اس دوران کراچی بھی گئے اورپشاور کے معالجین کے زیر علاج بھی رہے مگر اتنا افاقہ انہیں نہ ہو سکا کہ وہ دوستوں کی محفلوں میں لوٹ آئیں، سو وہ گھر تک ہی محدود رہے،بمشکل وہ ایک آدھ بار ہی نکل پائے ہوں گے، کچھ دن ادھر جب ان کی ہمشیرہ کا انتقال ہوا تھا تو قریب ہی اپنے کزن ڈاکٹر جمیل صابری کے گھر فاتحہ خوانی اور جنازہ میں شرکت کے لئے آنے والے احبا ب سے ملے تھے نحیف تھے مگر حوصلہ جواں تھا۔پھر اس کے بعد میں دو مرتبہ ان کی عیادت کے لئے ان کے گھر گیا وہ بیڈ سے اتر کر صوفہ تک بھی آئے اور ڈائینگ ٹیبل تک بھی تمام تر کمزوری کے ہشاش بشاش ہی لگے،مگر جب میں دو بارہ گیا تو وہ زیادہ کمزور تھے۔ ان کی مسز ناصرہ سجادجو میونسپل کالج کی پرنسپل رہیں جوگھر پر ان کا علاج کرا رہی تھیں ایک باہمت خاتون تھیں وہ ان کی اپنے طور پر خاصی دلجوئی اور تیمارداری بھی کر رہی تھیں مگر سچی بات ہے کہ اس وقت ضرورت اس بات کی تھی کہ سرکاری سطح پر سجاد بابر کا علاج کسی بھی اچھے ہسپتال میں کرایا جائے۔
یوں بھی ناصرہ بھابی کی پنشن ہی گھر کے خرچہ اور ان کی بہت مہنگی ادویات کا بوجھ اٹھانے میں مشکل سے پوری ہو رہی تھی مگر کسی اچھے ہسپتال تک ان کا جانا بہت ضروری تھا۔ ان کی اولاد نرینہ کے نہ ہونے کی وجہ سے دونوں سینئر سٹیزن کی زندگی کی گاڑی ہموار سڑک پر نہیں تھی مگر میں نے کبھی ان کی زبان پر کوئی شکوہ،شکایت نہیں سنی ہمیشہ وہ شکر ادا کرتیں اور کہتیں جب تک دم میں دم ہے میں ان کا خیال رکھتی رہوں گی، سجاد بابر ان کی طرف بھیگی آنکھوں سے دیکھتے اور میں جلد ہی ان کو ان کا شعریاد دلانے کی کوشش کرتا اور وہ بہت دھیرے سے کہتے ’ناصر جی مجھے یاد نہیں آ رہا‘ پھر میں بھابی سے پو چھتا ان کی کتابیں کہاں ہیں تو وہ دکھ سے کہتیں،بہت کتابیں ہیں مجھے نہیں لگتا کہ میں ڈھونڈ پاؤں گی۔پھر میں ان کو سجاد بابر کے شعر سنا تا سجاد بابر بچھڑ گئے تو جیسے شعر کا ایک مصرع کھو گیا، اب ناصرہ سجاد بھی بچھڑ گئیں شاید اب دور بہت دور کہیں شعر مکمل ہو گیا۔
شام جب کھولے لفافہ درد کا
صبح کو لکھنا منافع در د کا