افغانستان:سالنامہ

یکم مئی دوہزاراکیس سے پندرہ اگست دو ہزار اکیس (تین ماہ‘ دو ہفتے) کی جدوجہد کے بعد طالبان نے دارالحکومت کابل پر قبضہ کر لیا اور ذرائع ابلاغ پہلے ہی طالبان حکومت کی کارکردگی کا بطور سالنامہ جائزہ لے رہے ہیں‘ دوسری مرتبہ قدرے بآسانی اقتدار میں آنے کے بعد سے ایک سال کے دوران یہ اپنے فلاحی منصوبوں اور اصلاحی سوچ کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے کیونکہ دنیا اِنہیں سیاسی و اقتصادی طور پر تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں اور طالبان کو آج بھی بذریعہ طاقت افغانستان پر حکمران سمجھا جاتا ہے حالانکہ اگر ایسا ہوتا امن و امان کی صورتحال قطعی مختلف ہوتی‘ درحقیقت افغانستان نے دسمبر 1979ء سے آج تک ماسوائے جنگ کے کچھ اور نہیں دیکھا اور یہ اِس قدر طویل عرصہ ہے کہ اب افغانستان کے کسی بھی نسلی لسانی گروہ کیلئے خانہ جنگی ممکن نہیں رہی سب تھک ہار گئے ہیں۔

 اب دنیا کے کسی ملک کو افغانستان سے دلچسپی بھی نہیں رہی کہ وہ وہاں حکومت کی تبدیلی کیلئے سرمایہ کاری کرے افغانستان کے جنوبی صوبے قندھار سے عسکریت پسندوں کی ’ریگ ٹیگ آرمی‘ نے ایک ایسی افغان فوج کو شکست دی جسے امریکہ اور اس کے اتحادی بیس سال سے تربیت اور اسلحہ دے رہے تھے اور انہیں جدید ترین عسکری ہتھیاروں (ہارڈ وئر) سے بھی لیس کیا گیا‘ان کیلئے افغانستان پر قبضہ پہلا جبکہ استحکام‘ معاشی اور مالیاتی نظاموں کو چلانا دیگر چیلنجز تھے چونکہ افغانستان میں ریاست کا بہت زیادہ انحصار غیر ملکی امداد پر رہا‘ اس لئے بیرونی امداد کی صورت ”لائف لائن“ کے اچانک خاتمے کے نتیجے میں ایسی مشکلات پیدا ہوئیں جو دہائیوں میں نہیں دیکھی گئیں انہوں نے بینک فنڈز کو غیر منجمد کرنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن ایک مہلک ترین زلزلے کے بعد بھی ایسا نہیں کیا گیا  انہوں نے خواتین کی تعلیم و ملازمت اور اُن کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

جسے دنیا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی صورت دیکھتی ہے‘اگرچہ طالبان کو غنی حکومت ختم کرنے اور افغانستان پر قبضہ کرنے میں بمشکل بارہ دن لگے لیکن اب بارہ ماہ ہوچکے ہیں کہ وہ کسی ایک ملک کی سفارتی اور سرکاری پہچان حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے‘ واشنگٹن نے امریکی بینکوں میں تقریباً 7 ارب ڈالر کے افغان ذخائر کو منجمد کر رکھا ہے اور عطیہ دہندگان نے بھی ملک کو دی جانیوالی اپنی امداد روک دی ہے یا اس میں غیرمعمولی کمی کر دی گئی ہے فی الحال تو افغانستان میں بظاہر سکون ہی سکون نظر آتا ہے لیکن ریاستی نظم و نسق افراتفری سے دوچار ہے کامرس اور کمیونی کیشن سے لے کر دفاع اور ترقی تک‘ تقریباً تمام وزارتوں کے پاس مالی وسائل کی شدید کمی ہے۔

خودکش بم دھماکے ہو رہے ہیں طالبان حکومت کے ایک سال مکمل ہونے سے چار دن پہلے‘ دارالحکومت کابل میں شیخ رحیم اللہ حقانی کو ایک خودکش حملے میں ہلاک کیا گیا جن کا شمار طالبان کے اہم رہنماؤں میں ہوتا تھا‘ افغانستان میں بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال پاکستان کیلئے بھی باعث تشویش ہے کیونکہ افغانستان میں حالیہ چند مہینوں کے دوران مسلسل حملوں سے متعلق اقوام متحدہ نے خبردار کر رکھا ہے کہ بین الاقوامی دہشت گرد گروہ افغانستان میں قدم جما رہے ہیں اور بیرونی دنیا کیلئے یہ ممکنہ طور پر خطرہ بن سکتے ہیں‘ افغانستان کے موجودہ طالبان حکمران کئی لحاظ سے مختلف بھی ہیں کہ انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد بڑے پیمانے پر انتقامی کاروائیاں نہیں کیں۔