آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی

قوم آج اپنی آزادی کے 75 سال مکمل ہونے پر ڈائمنڈ جوبلی کا جشن منارہی ہے۔ملک بھر میں یوم آزادی کے حوالے سے سرکاری اور نجی سطح پر تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے۔سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں یوم آزادی کے موضوع پر خصوصی پروگرام رکھے گئے ہیں سرکاری اور نجی عمارتوں پرقومی پرچم لہرائے گئے ہیں لوگوں نے اپنے گھروں اور گاڑیوں کو قومی پرچموں سے سجا رکھا ہے۔نوجواں سبز ہلالی لباس زیب تن کرکے  خوشیاں منا  رہے ہیں۔ریڈیو اور ٹیلیوژن چینلز خصوصی پروگرام نشر کر رہے ہیں۔صدر، وزیر اعظم، گورنرز، وزرائے اعلی اور سیاسی جماعتوں کے قائدین کی طرف سے قوم کے نام جشن آزادی پر خصوصی پیغامات جاری کئے گئے ہیں۔پاکستان میں ڈائمنڈ جوبلی کی خصوصی تقربات کا آغاز یکم اگست سے ہوا تھا۔یہ سلسلہ پورا مہینہ جاری رہے گا۔قومی تقریبات منانا زندہ قوموں کی نشانی ہوتی ہے۔آج سے 75سال قبل 14 اگست 1947 کو ہم نے فرنگیوں اور ہندوؤں کے تسلط سے خود کو آزاد کرکے ایک ناقابل یقین معرکہ سر کیا تھا۔اور دنیا کے نقشے پر اسلامی نظریے کی بنیاد پر پہلی ریاست پاکستان وجود میں آئی۔

اس قوم کی آزادی کے لئے بیش بہا جانی اور مالی قربانیاں دی گئیں۔ہمارے اسلاف نے ایک اسلامی، فلاحی اور جمہوری ملک کے نظریے کی بنیاد پر پاکستان بنایا تھا۔ہم ہر سال جشن آزادی پر اپنے اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ ہم پاکستان کواس ملک کے رہنماؤں کے خوابوں کی حقیقی تعبیر بنائیں گے۔ 75 سال قوموں کی زندگی میں کوئی زیادہ طویل عرصہ نہیں ہوتا۔ اس عرصے میں ہم نے بڑی کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں ہم نے پاکستان کو دنیا کا چھٹا اور عالم اسلام میں پہلا ایٹمی ملک بنایا۔کرکٹ، ہاکی، سکواش،شطرنج،کوہ پیمائی اور دیگر کھیلوں میں عالمی اعزازات حاصل کئے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بھی اہم کامیابیاں حاصل کیں پاکستان کے خلاف دشمنوں کی ریشہ دوانیوں اور مسلسل سازشوں کے باوجود ہمارے کارہائے نمایاں کی فہرست کافی طویل ہے۔تاہم چند شعبے ایسے ہیں جن میں ہمیں اب تک ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ان میں سب سے اہم شعبہ معیشت ہے جسے ہم مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر استوار نہیں کر سکے ہیں۔

ایک وقت تھا کہ ہم نے خطے کے کئی ممالک کیلئے معاشی ماڈل تربیت دئیے اور انہوں نے اس پر عمل کرکے ترقی کی اور آج وہ ہم سے کہیں آگے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہم نے خود کفالت کی بجائے قرضوں سے ہی معیشت کو مستحکم کرنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اس حوالے سے تمام سیاسی قیادت کو متفق ہوکر ایک ایسی معاشی پالیسی پر عمل پیرا ہونا ہوگا کہ جو حکومتوں کی تبدیلی سے متاثر نہ ہو اور اس پر عمل درآمد میں تسلسل کو یقینی بنایا جائے۔ کہ جب ہم پھر جشن آزادی منائیں تو ایسی حالت میں کہ ہم پر دوسرے ممالک اور مالیاتی اداروں کے قرضوں کا بوجھ نہ ہو۔ ہم غذائی اجناس درآمد کرنے کی بجائے برآمد کرنے ولاے ممالک میں شامل ہوں۔ صنعتی ترقی کی صورت میں ہم جدید مشینیں خود بنا رہے ہوں اور دوسرے ممالک ہم سے ٹیکنالوجی درآمد کریں۔یہ وہ مقام ہے جسے حاصل کرنے میں ہی ہماری بقا ہے۔اس طرح سرتوڑ کوششوں کے باوجود ہمیں اب تک کرپشن پر قابو پانے میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہمارے ہاں اب تک طبقاتی نظام تعلیم رائج ہے۔ہمیں سودی بینکاری کا نظام ختم کرنے میں بھی مشکلات درپیش ہیں۔جب تک ان ناکامیوں اور کوتاہیوں پر قابو نہیں پایا جاتا۔اسلامی، فلاحی اور جمہوری پاکستان کی تشکیل کا ہمارے اسلاف کا خواب تشنہ تعبیر رہے گا۔