سری لنکا میں حکومت کی تبدیلی (نئے صدر رانیل وکرما سنگھے اور نئے وزیر اعظم دنیش گونا وردنے) کے باوجود بھی ’بیس جولائی‘ سے جاری معاشی و سیاسی بحران برقرار ہے۔ سال دوہزاربائیس کی بلندترین شرح سے مہنگائی اور روزمرہ کی ضروریات جیسا کہ خوردنی اشیا اور ایندھن کی شدید قلت کے باعث تقریباً تمام معاشی سرگرمیاں ٹھپ ہو کر رہ گئی ہیں۔ حکومت کا خسارہ اتنا بڑا ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کرنے کے لئے بھی وسائل موجود نہیں ہیں اور مرکزی بینک کے پاس درآمدات یا قرضوں کی ادائیگی کے لئے زرمبادلہ نہیں رہا مختصراً سری لنکا جس درجے کے اقتصادی بحران کا سامنا کر رہا ہے‘ اُس میں صرف قیادت کے چہرے بدلنے سے حالات معمول پر آتے نظر نہیں آ رہے اور یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ سری لنکا کا مستقبل پہلے سے زیادہ غیریقینی سے دوچار ہے اور آگے بڑھنے کا کوئی راستہ (حل) بمشکل دکھائی دے رہا ہے۔ سری لنکا کی معاشی بہتری کے لئے ماضی کی مالیاتی پالیسیوں کو ترک کرنے اور اصلاحات کی ضرورت ہے بالخصوص نئی حکومت (صدر اور وزیراعظم) کو چار کلیدی اقتصادی چیلنجز سے نمٹنا ہے اور یہ چاروں حل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے بھی ہیں۔ سب سے پہلے تو ’سری لنکا‘ حکومت کو روزمرہ کی ضروریات پورا کرنا ہے۔
حلف برداری کے بعد وکرما سنگھے نے کہا کہ ”ان کی ترجیح اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ لوگ دن میں تین وقت کا کھانا کھا سکیں“ لیکن یہ کس طرح ممکن ہو سکے گا جبکہ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں 76فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے اور کئی ایسی اجناس بھی ہیں جن کی قیمت سوفیصد سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے۔ جیسا کہ چاول 160فیصد‘ گندم 200 فیصد اور چینی کی قیمت میں 164 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ظاہر ہے کہ مہنگائی کی اِس شرح کے مطابق ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کرنا پڑے گا کیونکہ موجودہ شرح سے ماہانہ تنخواہیں اِس قدر کم ہیں کہ ایک سرکاری ملازم ڈیڑھ مہینے کی تنخواہ کے عوض صرف گیس سلنڈر حاصل کر سکتا ہے! معاشی غیریقینی صورتحال کی وجہ سے دفاتر اور تعلیمی ادارے (سکول سے جامعات تک) بند ہیں‘ جنہیں کھولنا حکومت کی دوسری اہم ترین ترجیح ہے۔ ایندھن کی قلت اور مہنگائی کی وجہ سے نقل و حرکت کے ذرائع ٹھپ ہیں اور کسی ایک شہر سے دوسرے شہر تو دور کی بات معمولی فاصلے طے کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔ سری لنکا کے بیشتر حصوں میں بجلی کی فراہمی معطل ہے کیونکہ بجلی کی پیداوار کے لئے درآمدی ایندھن پر انحصار کرنے والے بجلی گھر لگائے گئے ہیں۔
سری لنکا کو اِس بحران سے نکلنے کے لئے ’عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)‘ کی ضرورت ہے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا جو مشکلات کے شکار لنکن معیشت کو مالی مدد فراہم کر سکے اور جب تک معاشی مشکلات جاری رہیں گی اُس وقت تک سری لنکا میں زندگی معمول پر نہیں آئے گی۔’سری لنکا‘ جو پہلے سیلون (Ceylon) کہلاتا تھا‘ بحر ہند میں واقع جزیرہ نما ملک ہے اور یہ آبنائے پالک کے ذریعے بھارت سے قریب ہے۔ دو کروڑ بیس لاکھ (21.92ملین) آبادی پر مشتمل اِس جزیرے کی 72فیصد سے زائد آبادی بدھ مت کی پیروکار ہے جبکہ قریب 10 فیصد آبادی مسلمان ہے اور سری لنکا کی آمدنی کا انحصار سیاحت پر ہے لیکن ایک ایسی صورتحال میں جبکہ ملک میں نہ تو سیاسی و معاشی استحکام ہے اور نہ ہی سیاسی و معاشی استحکام کے قیام کی کوئی اُمید دکھائی دے رہی ہے‘نئی سری لنکن حکومت (صدر اور وزیراعظم) کے لئے دوسری معاشی اصلاح بجٹ خسارہ کم کرنا ہے تاکہ حکومت کی آمدنی اور اخراجات کے درمیان توازن قائم ہو جائے۔ قابل ذکر ہے کہ سری لنکا کی آمدن و اخراجات کے درمیان فرق 240 فیصد ہے یعنی حکومت کی آمدنی 100 روپے لیکن اخراجات 240 روپے ہیں جبکہ ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لئے مزید 91فیصد مالی وسائل درکار پیں! اِس صورتحال پر قابو پانے کے لئے گزشتہ چند ماہ میں زیادہ مقدار میں کرنسی نوٹ شائع کئے گئے ہیں لیکن اِس سے ماسوائے افراط زر (مہنگائی) میں اضافے کچھ حاصل نہیں ہو سکا ہے۔
سمجھنا ہوگا کہ سری لنکا کے موجودہ بحران کی بنیادی وجہ کئی دہائیوں کی مالی بدانتظامی ہے‘ جس میں حکومت کی آمدنی کم اور اخراجات آمدن سے زیادہ رہے اور اِس سے پیدا ہونے والے خسارے کو 2 طریقوں سے حل کیا گیا۔ ایک تو ٹیکسوں کی شرح بڑھائی گئی اور دوسرا قومی اثاثے گروی رکھ کر قرض لئے جاتے رہے اور بالآخر صورتحال اُس نہج تک جا پہنچی جہاں 10جولائی کے روز عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور ہزاروں مظاہرین نے سابق صدر ’گوتابایا راجا پاکسے‘ کی سرکاری رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا اور محل سمیت اِس میں رکھے قیمتی سازوسامان کو آگ لگا دی۔ ذہن نشین رہے کہ سری لنکا نے گزشتہ چند دہائیوں میں تقریباً 51 ارب امریکی ڈالر کا غیر ملکی قرضہ لیا لیکن اس کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر نہیں کہ یہ غیرملکی قرض واپس کر سکے جس کی وجہ سے اپریل میں غیر ملکی قرضوں کی ادائیگیاں معطل کرتے ہوئے ملک کے دیوالیہ ہونے کو تسلیم کر لیا گیا تھا۔ سال 2021ء کے آخر میں تقریباً پنتالیس فیصد قرض نجی سرمایہ کاروں پر واجب الادا تھا جب کہ باقی ممالک اور ملٹی نیشنل اداروں کا تھا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کا قرض سب سے زیادہ یعنی سولہ فیصد تھا جبکہ جاپان‘ چین اور ورلڈ بینک کی جانب سے سری لنکن قرض میں حصہ داری دس فیصد حصہ ہے۔ سری لنکا کو اقتصادی بحران سے نکلنے کے لئے ’آئی ایم ایف‘ سے مدد درکار ہے لیکن ’آئی ایم ایف‘ یقین دہانی چاہتا ہے کہ قرض واپس کہاں سے کیا جائے گا؟ یہی صورتحال دیگر بین الاقوامی اداروں اور ممالک کا بھی ہے جو اِس مشکل کی گھڑی میں سری لنکا کو مزید قرض دینے کے لئے تیار نہیں ہیں جب تک کہ ’آئی ایم ایف‘ پہل نہیں کرتا۔