توانائی کے بحران نے صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک کی معیشت کا بھی بھٹہ بٹھا دیا ہے اور انہوں نے توانائی بچانے کے طریقوں پر غور شروع کیا ہے۔ جو قومیں حالات و واقعات کے مطابق ٹھوس اور جامع منصوبہ بندی کرتی ہیں اور پھر خلوص نیت کے ساتھ اس پر عمل کرتی ہیں ان قوموں کو شاہراہ ترقی میں آگے بڑھنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔عوامی جمہوریہ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے‘چیئرمین ماوزے تنگ کی سربراہی میں چینی قیادت نے اپنے وسائل پر انحصار کرنے اور سائنس و ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کی منصوبہ بندی کی‘ پچاس سال سے بھی کم عرصے میں چین نے دنیا کی عظیم معاشی طاقت بن کر دکھایا۔چین ہمارا سٹرٹیجک، معاشی اور تجارتی حلیف ہے مگر ہم نے ان کے تجربات سے کچھ نہیں سیکھا۔چین میں توانائی کی نئی قسموں سے استفادہ کیا جارہا ہے اور دنیا میں شمسی توانائی کا سب سے زیادہ استعمال کرنے والا ملک ہے اور آنے والے کئی سالوں میں اس حوالے سے کئی قسم کے انقلابی اقدامات کئے جارہے ہیں جن کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک میں پیدا ہونے والی بجلی کے بڑے حصے کو شمسی بجلی گھروں سے حاصل کیا جائیگا۔
چین اور یورپ کے ترقی یافتہ ممالک کو تو چھوڑئیے جنوبی ایشیاء میں بھی اب روایتی ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کی بجائے الیکٹرک گاڑیوں کا استعمال بڑھنے لگا ہے۔اس طرح توانائی کے ذرائع کی نت نئی قسمیں جوسامنے آرہی ہیں ان سے بھی بھر پور استفادہ کیا جارہا ہے۔شمسی توانائی، ہوائی چکیوں کے ذریعے بجلی کی پیداوار اور نباتاتی تیل کو فاسل ایندھن کی بجائے استعمال میں لانا وہ اقدامات ہیں جن کی بدولت ممالک اپنی معیشتوں کو نہ صرف ترقی دے رہے ہیں بلکہ توانائی کی بچت کے ذریعے اس شعبے میں پیدا شدہ بحران سے بھی کامیابی کے ساتھ نمٹ رہے ہیں۔اگر ہم بھی گاڑیوں کے استعمال میں کفایت برتیں اور گاڑیوں کے استعمال میں روایتی ایندھن کی بجائے رنیوایبل انرجی سے استفادہ کریں تو بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ملک میں تیار شدہ اشیاء کو ترجیح دینی چاہئے۔اس طرح ملکی صنعتوں کو فروغ ملے گا اور قیمتی زر مبادلہ کی بچت بھی ہوگی۔
اپنے ملک میں تیار ہونے والی گاڑیاں اور دیگر مصنوعات استعمال کریں۔ برقی گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دیں اس سے نہ صرف اربوں ڈالر کی بچت ہوسکتی ہے اور قومی معیشت کو سہارا مل سکتا ہے۔بلکہ اپنی مصنوعات کا معیار بھی بہتر ہوگا۔تجارت کوفروغ ملے گا اور ہم چند سالوں کے اندر قرضہ لینے کے بجائے قرضہ دینے والے ملکوں کی صف میں شامل ہوسکتے ہیں مثبت مسابقت کو فروغ دینے کے لئے پالیسیاں بنانی ہوں گی اور بالائی طبقات کو کفایت شعاری کے لئے خود کو رول ماڈل بنانا ہوگا۔ اگر ہم نے اپنا طرز عمل نہیں بدلا تو قوم کی زندگی میں تبدیلی لانے کے سارے دعوے کھوکھلے ثابت ہوں گے۔دیکھا جائے تو ہم میں سے ہر کوئی یہ کہتا ہے کہ موجودہ مشکل حالات سے نکلنے کا راستہ کفایت شعاری میں ہے تاہم اس پر عمل پیرا ہونے کیلئے ہم تیار نہیں ہیں۔ کوئی بھی اپنے طرز زندگی کو بدلنے کیلئے تیار نہیں۔ ہم جو چیز خریدتے ہیں تو کوشش کرتے ہیں کہ وہ برانڈڈ ہو اور یقینا اسی پیمانے پر وہ مہنگی بھی ہوگی۔ایسے میں کیونکر ممکن ہے کہ ہمارا درآمدی بل کم ہواور بلا ضرورت درآمدات پر قیمتی زر مبادلہ ضائع نہ ہو۔