تو نشان ِعزم عالیشان

یادش بخیر نظریاتی اور جدید قومی ریاست کے طور پر قیام ِپاکستان سے شروع ہونے والی جدوجہد ’لامحدود اور لامتناہی‘ دکھائی دے رہی ہے‘ پاکستان کا شمار دنیا کے اُن چند ممتاز ممالک میں ہوتا ہے جس کے ”نوجوان“ اِس کی کل آبادی کے نصف سے زیادہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو ”نوجوان ترین افراد“ کا ملک کہا جاتا ہے اور بجا کہا جاتا ہے۔ اندازے کے مطابق پاکستان کی آبادی کا پینسٹھ فیصد (قریب بارہ کروڑ افراد) کی عمریں تیئس سال سے کم ہیں۔ نوجوانوں پر مشتمل یہ افرادی قوت قومی تعمیر و ترقی کے عمل اُور قومی فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے لیکن اِس افرادی قوت کی صلاحیتوں سے خاطرخواہ استفادہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں تعلیم‘ صحت‘ روزگار‘ ہنرمندی اور باوقار زندگی سمیت دیگر بنیادی ضروریات کو پورا کیا جائے‘ جس کے بعد اِن سے توقع کی جائے کہ یہ اب قومی یا صوبائی یا علاقائی سطح پر ’بامعنی سیاسی قوت‘ جیسی اپنی ذمہ داری سے آگاہ ہیں اور اِس سلسلے میں ایک بامعنی (فیصلہ کن) کردار ادا کر سکتے ہیں بالخصوص جب ہم ”ڈیجیٹلائزیشن“ کا حوالہ دیتے ہیں تو نوجوانوں پر ”فوکس“ کی ضرورت زیادہ کلیدی اہمیت اختیار کر جاتی ہے۔ ناقابل فراموش حقیقت ہے کہ آج کے نوجوانوں کی اکثریت ”آن لائن“ وسائل سے جڑی ہوئی ہے۔

 ”آن لائن“ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نوجوان اپنی رائے کا اظہار تعمیری یا تخریبی انداز میں کر رہے ہیں۔یادش بخیر پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کے عمل سے علیحدہ (تعلیمی اِداروں سے باہر) ہیں‘ یہ بچے خلاف ِقانون محنت مشقت (چائلڈ لیبر) کے علاوہ بھیک مانگنے پر مجبور ہیں کیونکہ غربت کے انسداد کی حکومتی کوششیں ہر دور میں ناکافی رہی ہیں۔ جس کی ایک وجہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے‘ جس پر بھی باوجود کوشش اور اعدادوشمار جیسے دعوؤں کے بھی قابو نہیں پایا جا سکا ہے! کسی ملک کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہونا بڑی بات ہے لیکن یہ بڑی بات اگر وہاں ڈھائی کروڑ (پچیس ملین) بچوں کے سکول سے باہر ہونے کی بھی نشاندہی کر رہی ہو تو مجموعی حاصل قابل بیان نہیں ہوتا کیونکہ اگر ہم نوجوانوں کی تخلیقی صلاحیتوں اور اُن کے تخلیقی جذبوں کو اُبھارنے کی بجائے دبا رہے ہیں تو اِس پھسلن والے راستے سے ہوتے ہوئے وہ ’نفرت و مفادات انگیز سیاست‘ کا چارہ بن جائیں گے۔ سوچنا ہوگا کہ جو نوجوان کسی نہ کسی طور ”اعلیٰ تعلیم“ حاصل کر لیتے ہیں تو اِس کا مطلب صرف اور اسناد (بے معنی ڈگری سرٹیفیکیشن) ہوتا ہے اور اُنہیں عملی زندگی کے تجربات یا تقاضوں کا صرف کتابی (نصابی) تعارف ہوتا ہے اور وہ بھی یاداشت میں زیادہ دیر باقی نہیں رہتا کیونکہ درس و تدریس کا نظام علم و حکمت کے نظریات سمجھنے پر نہیں بلکہ اُنہیں ’رٹا‘ لگانے پر منحصر ہے۔

 یادش بخیر پاکستان میں ہوئی سرمایہ دارانہ صنعتی ترقی‘ قومی مفادات پر حاوی اِس قدر حاوی ہو چکی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں ظاہر ہونے کے باوجود بھی اصلاح نہیں کی جا رہی۔ برفانی تودے تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ بارشیں سالانہ اوسط سے زیادہ ہو رہی ہیں۔ زرخیز بارانی علاقوں میں خشک سالی ہے جبکہ شہروں کی پختہ سڑکوں پر بادل برس رہے ہیں! اِس صورتحال میں پاکستان کا نوجوان ”علامتی طور پر“ شدید ذہنی و نفسیاتی دباؤ کے دور سے گزر رہا ہے۔ ایک ایسا دور جس سے غیریقینی جھلک رہی ہے اور اِس صورتحال میں واحد امید یہ ہے کہ نوجوانوں میں ”ترقی پسند خیالات“ کو بویا جائے‘ اُن کی شخصیت و صلاحیتوں کو اُبھارہ جائے تاکہ وہ درپیش ”بدترین حالات“ کو ”بہترین حالات“ سے بدل دیں اور ایک متبادل مستقبل تخلیق کریں‘ تاہم یہ کام جلد کرنا ہوگا کیونکہ وقت بہت کم ہے اور کم سے کم 75 سال سوچ بچار میں ضائع ہو ہی چکے ہیں! نوجوانوں کو بقول علامہ اقبال ؒ اِس بات کا بھی باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ”وہی جہاں ہے تیرا جس کو تو کرے پیدا …… یہ سنگ و خشت نہیں‘ جو تیری نگاہ میں ہے۔“

یادش بخیر اِنسانی مزاج کے بارے میں ’ماہرین ِنفسیات‘ کی 7 آرأ سے قومی اطمینان کا معیار معلوم کیا جا سکتا ہے‘ یا اِس بارے میں رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ علم ِنفسیات میں غوطہ زنی کرنے والوں کے ہاتھ جو کچھ لگا ہے اُس سے اخذ آرأ حتمی اصول تصور  تصور ہوتے ہیں۔ ”پہلی رائے: اگر کوئی شخص (مرد یا عورت) بہت زیادہ ہنسے یا احمقانہ باتوں پر اپنی ہنسی قابو میں نہ رکھ سکے تو ایسا کردار اندر سے اکیلا (تنہائی کا شکار) ہوتا ہے۔ دوسری رائے‘ جو شخص کم بولے لیکن بولتے ہوئے الفاظ کی ادائیگی تیزی سے کرے تو ایسے کردار کے اندر راز ہوتی ہے‘ جسے اُگلنے سے روکنے کی وہ کوشش کرتا ہے‘ تیسری رائے: اگر کوئی انسان بہت زیادہ سوتا ہے تو درحقیقت وہ اداس ہوتا ہے۔ چوتھی رائے‘ اگر کسی شخص کو اپنے حالات یا گردوپیش کے حالات پر رونا نہیں آتا تو وہ اعصابی کمزور کا شکار ہوتا ہے۔