ماحولیاتی آلودگی


کورونا وباء اور بعد ازاں روس یوکرین جنگ نے عالمی معیشت کو جن خطروں سے دوچار کئے رکھا ہے اس سے نکلنے میں تو وقت لگے گا، تاہم ماحولیاتی آلودگی وہ خطرہ ہے جو کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی جارہا ہے۔حال ہی میں سائنسدانوں نے لاہور کے سیٹلائٹ ڈیٹا کا جائزہ لیا ہے۔ اس شہر کی ہوا میں میتھین گیس کی سطح اندازوں سے بھی کہیں زیادہ تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے، جو انسانوں اور ماحول دونوں کے لئے ہی نقصان دہ ہے۔سائنسدانوں نے ایک نئی تحقیق جاری کی ہے، جس کے مطابق دنیا میں نامیاتی کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کے گلنے سڑنے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر میتھیں گیس کا اخراج ہو رہا ہے۔ یہ وہ گیس ہے، جو زمینی درجہ حرارت میں اضافے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔اس تحقیق میں سائنسدانوں نے دنیا کے تین بڑے شہروں کے سیٹلائٹ ڈیٹا کا جائزہ لیا
 ہے۔ ان بڑے شہروں میں پاکستان کا لاہور، بھارت کا دہلی اور ارجنٹائن کا بیونس آئرس شامل ہیں۔ اس ڈیٹا سے پتا چلا ہے کہ 2018 اور 2019 کے دوران لاہور میں ضرر رساں گیسوں کا اخراج 1.4 سے 2.6  گنا زیادہ تھا۔ یہی حال دہلی اور بیونس آئرس کا تھا۔اس تحقیق کا مقصد مقامی حکومتوں کو عالمی حدت میں کمی کے لیے بنائے گئے اہداف کے حصول میں مدد فراہم کرنا ہے۔ اس طرح ان خصوصی عوامل اور مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے، جو ماحولیاتی تباہی 
میں مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں۔جب نامیاتی فضلہ جیسے کہ خوراک، لکڑی یا کاغذ گلنے سڑنے لگتے ہیں تو ہوا میں میتھین گیس کا اخراج ہوتا ہے۔ آئل اینڈ گیس سسٹمز اور زراعت کے بعد دنیا میں ضرر رساں گیسوں کے اخراج کی تیسری بڑی وجہ نامیاتی کوڑے کرکٹ کے ڈھیر یا پھر لینڈ فِلز ہیں۔ لینڈ فِلز اس نامیاتی ملبے کو کہا جاتا ہے، جو زمین بھرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں میں میتھین کا حصہ صرف 11 فیصد ہے اور اخراج کے بعد یہ تقریبا ًبارہ سال تک ہوا میں رہتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہوا میں یہ گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کی نسبت 80 گنا زیادہ گرمی یا حدت کو قید کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔سائنسدانوں کے اندازوں کے مطابق موجودہ عالمی حدت میں 25 فیصد
 کردار اس میتھین گیس کا ہے، یہ پہلا موقع ہے کہ ہائی ریزولوشن سیٹلائٹ تصاویر کو لینڈ فلز کا مشاہدہ کرنے اور ان کے میتھین کے اخراج کا حساب لگانے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔اس نئی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ لینڈ فلز یا کوڑے کے ڈھیروں کا بہتر انتظام کس قدر ضروری ہے۔ ماہرین کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کے سدباب میں سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کا استعمال ابھی نیا ہے لیکن پاکستان جیسے ممالک مستقبل میں اس سے مزید فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق چین اور بھارت دنیا میں سب سے زیادہ میتھین گیس پیدا کرنے والے ممالک ہیں۔ میتھین گیس کے حوالے سے حساس شہروں میں پاکستان کے ایک شہر کا شامل ہونا تشویشناک ہے اور اس سلسلے میں اب تیزی کے ساتھ مربوط اقدامات کی ضرورت ہے۔