ادویات کی قیمتوں میں اضافہ اور ادویات کی قلت حالیہ چند ماہ کے دوران معمول بن گیا ہے جس کی بنیادی وجہ دواسازی میں استعمال ہونے والے خام مال کی بڑھتی ہوئی درآمدی قیمتیں اور اندرون ملک اِن کی تیاری (مینوفیکچرنگ) کی بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت ہے۔ ادویہ سازوں نے جب کسی دوا کی قیمت بڑھانا ہوتی ہے تو اُس کی ترسیل کم کر دیتے ہیں یا ترسیل بالکل روک لیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے مارکیٹ میں دوا کی قلت پیدا ہوتی ہے اور چونکہ ادویات کوئی بھی شوق سے نہیں خریدتا بلکہ انتہائی ضرورت ہی کے تحت ادویات خریدی جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مصنوعی قلت کے دوران ادویات کی منہ مانگی قیمتیں وصول کی جاتی ہیں لیکن ظاہر ہے کہ یہ سلسلہ مہینے دو مہینے سے زیادہ نہیں چل سکتا اِس لئے خاموشی سے دوا کی نئی قیمت متعارف کروا دی جاتی ہے اور صورتحال اِس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ ماضی میں کسی ایک دوا کی کبھی کبھار کمی (شارٹیج) ہوتی تھی لیکن اب یہ کمی معمول بن گئی ہے اور ہول سیل و پرچون کی مارکیٹ میں ہر وقت کسی نہ کسی دوا کی کمی رہتی ہے‘ جن میں جان لیوا بیماریوں اور دماغی و اعصابی بیماریوں (جیسا کہ مرگی یا فالج‘ شوگر و بلڈپریشر‘ دل‘ جگر یا گردے کے امراض) کے علاج کے لئے استعمال ہونے والی ادویات بھی شامل ہوتی ہیں اور یہ صرف پریشانی نہیں بلکہ پریشانی کی انتہا ہے۔پشاور کی ہول سیل میڈیسن مارکیٹ کی صورتحال یہ ہے کہ رواں ہفتے کم از کم چالیس دوائیں ناپید ہوئیں اور اِن کے متبادل ادویات کی قیمتیں بھی اصل سے زیادہ تقاضا کی جاتی رہیں۔ جواز یہ بتایا جاتا ہے کہ ادویات بنانے والے زیادہ تر پروڈیوسرز (صنعتکاروں) نے قیمتوں کے نگران حکومتی ادارے (ریگولیٹر) کی جانب سے خوردہ قیمتیں بڑھانے سے انکار کی وجہ سے درآمدات بند کر دی ہیں اور اِن صنعتکاروں کا مطالبہ ہے کہ حکومت ڈالر کی قدر میں اضافے کے تناسب سے ادویات کی قیمتیں مقرر کرنے کا اختیار دے۔ دوسرا مطالبہ ادویات کی تیاری و فروخت (پیکجنگ اور مارکیٹنگ) کے ہیں‘ جن کی لاگت میں اضافہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق ہے اور اگر حکومت اِن دونوں مطالبات کو تسلیم کر لیتی ہے تو ادویات کی قیمتیں ڈالر کی قدر میں ردوبدل کی طرح ہر چند منٹ بعد تبدیل ہونے لگیں گی جو دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتا! تصور محال نہیں کہ ادویات کی حالیہ قلت کے باعث ایسے مریض جو یا تو اپنی روزمرہ کی خوراک میں کمی کرنے پر مجبور ہیں یا بلیک مارکیٹ سے مہنگے داموں ادویات کرنے پر مجبور ہیں تو اُن کی معاشی حالت (گزربسر) کس طرح متاثر ہو رہی ہے!پاکستان میں ادویات کی قیمتوں کا تعین ہمیشہ سے ہی ایک مسئلہ رہا ہے۔ یہ بالکل ویسی ہی صورتحال ہے جیسا کہ گندم‘ چینی‘ گھی‘ کوکنگ آئل اور دالیں (خوردنی اجناس) کے فروخت کنندہ یا درآمد کرنے والوں کی جانب سے دیکھنے کو ملتا ہے۔ جب کسی ادویہ ساز ادارے کو قیمتیں معمول پر رکھنے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے تو وہ اپنا منافع کم نہیں کرتا بلکہ کسی دوا کی تیاری پر ہونے والے اخرجات کم کرتے ہوئے معیار پر سمجھوتہ کر لیتا ہے۔ ادویات کی قیمتیں اور عوام کی قوت ِخرید نہایت ہی حساس موضوع ہے، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملکی ادویہ ساز ادار ے فعال ہیں جبکہ کئی غیر ملکی معیاری کمپنیوں نے اپنی سرمایہ کاری پر کم منافع کی وجہ سے پاکستان سے کاروبار سمیٹ لیا ہے۔ یہ اجارہ داری اور منافع خوری پر مبنی طرز عمل تبدیل ہونا چاہئے۔ مالی طور پر کمزور طبقات کو ادویات کی بلاتعطل فراہمی کے لئے اختراعی طریقے اپنانے ہوں گے‘ جنہیں کم قیمت کی بجائے یہ ادویات مفت ملنی چاہئیں۔ ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غریب مریضوں میں مفت تقسیم کے لئے سرکاری شعبے کے ہسپتالوں کے لئے ادویات کی خریداری کے لئے براہ راست فنڈز فراہم کئے جائیں اور مریضوں کا ریکارڈ رکھتے ہوئے اُنہیں درکار ادویات مقررہ حکومتی فارمیسیز سے بلاقیمت فراہم کی جائیں۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں ادویہ سازی کی صنعت کا کل مالیاتی حجم سال 2011ء میں 1.64 ارب ڈالر تھا جو سال 2020ء میں بڑھ کر 3.2 ارب ڈالر اور سال 2021ء کے اختتام تک 4 ارب ڈالر کو چھو رہا تھا۔ اگر ادویہ سازی کے شعبے کو توجہ دی جائے تو اِس کا مالیاتی حجم مزید بڑھ سکتا ہے اور جب کسی جنس کی پیداوار بڑھتی ہے تو اُس کی پیداواری لاگت خودبخود کم ہوتی چلی جاتی ہے۔ ادویات کی قیمتوں اور اِس کے معیار پر نظر رکھنے والے ادارے (ڈریپ) کو اِس بات پر توجہ دینی چاہئے کہ کس طرح قیمتوں میں اضافہ کئے بغیر ادویات کا معیار یقینی بنایا جائے اور کس طرح جعلی و غیر معیاری ادویات کی سمگلنگ و فروخت روکی جائے جبکہ اِس شعبے کے ذخیرہ اندوز بھی پہلے سے موجود پریشانی میں اضافہ کر رہے ہیں! اِس سلسلے میں علاقائی ممالک کی مثالیں مطالعے کے لئے موجود ہیں جہاں بہت برس پہلے اپنے ہاں دواسازی اور اِس کی فروخت میں پائی جانے والی بے ضابطگیاں ختم کر دی گئی ہیں جس سے نہ صرف متعلقہ صنعتوں میں سرمایہ کاری بڑھی ہے بلکہ اِن کا معیار بھی عالمی معیارات کے مطابق بہتر ہوا ہے۔ اور بڑی ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرکے امریکی اور یورپی منڈیوں میں توسیع کرنے میں مدد ملی ہے۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اگر دیگر ممالک اپنے ہاں ٹیکنالوجی کا بہتر و کارآمد استعمال کرتے ہوئے ادویات کی قیمتیں اور معیارکنٹرول کر سکتے ہیں تو ایسا پاکستان کیوں نہیں کر سکتا؟۔