صوبائی دارالحکومت پشاور میں منشیات کی فروخت اور اِن کے استعمال میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جس کی وجہ سے سماج اندر ہی اندر سے ٹوٹ ہو رہا ہے اور یہ تخریب ایک امن و سلامتی اور تعمیر جیسی صلاحیتوں پر یقین رکھنے والے ملک و قوم کیلئے تشویش اورجگ ہنسائی‘ کا سبب بھی بن رہا ہے۔ لمحہئ فکریہ وجہئ شہرت کو پہنچنے والا نقصان بھی ہے کہ سوشل میڈیا پر جہاں پشاور کی خوبیاں پیش کی جا رہی ہیں وہیں سینکڑوں کی تعداد میں ملکی و غیرملکی سیاحوں نے یہاں منشیات فروشی کا ذکر بھی کیا ہے اور کئی سیاحوں کی ویڈیوز تو ایسی بھی ہیں جس میں اُنہیں ”مہمان نوازی“ کے طور پر مفت پیش کردہ ’چرس‘ کا دھواں اُگلتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک وقت تک پشاور میں رواداری اور تہذیب،ادب و احترام بالعموم مثالی حد تک بلند ہوا کرتا تھا۔تاہم اب وہ صورتحال نہیں تو آخر پشاور کے زوال کا یہ سفر ہمیں کس منزل کی جانب لے جا رہا ہے اور اِس کا حتمی نتیجہ کیا ہوگا؟پشاور کو لاحق سب سے بڑا خطرہ نشہ آور اشیا کی باآسانی دستیابی ہے اور اگر اِس مسئلے (خطرے) کا اب بھی ادارک و ازالہ نہ کیا گیا تو گلی کوچوں‘ چوراہوں سے ہوتا ہوا نشہ تعلیمی اداروں تک پہنچ ہی چکا ہے اور یہ آگ تیزی سے پھیل رہی ہے‘ جو اقدار و اخلاقیات اور روایات و سماجیات کو راکھ کر رہی ہے! منشیات کا استعمال کرنے والے کسی بھی قسم کے ذہنی دباؤ یا محض کسی نجی محفل میں لطف اندوز ہونے کے لئے چند لمحے کے سرور کا جو تجربہ کرتے ہیں وہ بھیانک سپنا بن کر ساری زندگی اِن کا پیچھا کرتا ہے۔
منشیات کا استعمال عموماً تمباکو نوشی (سگریٹ کے چند کش لینے) سے ہوتا ہے‘ جس کی انتہائی شکل پچکاری (سرنج انجیکشن) کا استعمال ہے اور اب ایک نشہ ’میتھمفیٹامین‘ جسے عرف عام میں ’آئس‘ کہا جاتا ہے‘ قیمت کے لحاظ سے مہنگا ہونے کے باوجود پشاور کے اندازاً 30فیصد منشیات کے عادی افراد میں مقبول ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ چرس کا نشہ کرنے والے پچاس فیصد جبکہ ہیروئن اور شراب 15فیصد جبکہ پانچ فیصد نشے کے ایسے عادی افراد ہیں جو ’pain killer‘ اور نفسیاتی علاج معالجے والی ادویات کا بطور نشہ آور استعمال کرتے ہیں اور اِس رجحان (ٹرینڈ) کو روکنے کے لئے پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے مخصوص ادویات کی فروخت بنا ڈاکٹری نسخے فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن انتظامیہ کا دھیان اُن ’ہول سیلرز‘ کی طرف نہیں جاتا جہاں سے ایسی ادویات سستے داموں اور بڑی مقدار میں حاصل کی جا رہی ہیں! لمحہ فکریہ ہے کہ منشیات کے استعمال کی مختلف صورتوں سے جاری ہے لیکن اِس کے بارے میں ضلعی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے خاطرخواہ حساسیت کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی دارالحکومت کو منشیات اور اسلحے سے پاک کرنے کے لئے خصوصی مہمات کا اعلان کیا جائے اور ضلعی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادار ے اس حوالے سے فعال کردار ادا کریں کیونکہ منشیات کسی ناسور کی طرح ہمارے معاشرے کی ہر خوبی‘ کمال اور ذہانت کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے!پشاور میں نشے کے عادی افراد کے لئے بحالی مرکز کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا بحالی مرکز جہاں ہنرمندی کی عملی تربیت ہی نہ دی جائے بلکہ نشے کے عادی افراد کو روزگار بھی دیا جائے اور اُنہیں اِس قدر مصروف کر دیا جائے کہ اُن کا دھیان کسی دوسرے جانب مبذول ہی نہ ہو! فی الوقت پشاور میں نشے کے عادی افراد کی بحالی کے مراکز ناکافی مالی وسائل اور گنجائش کی وجہ سے مشکلات سے دوچار ہیں‘ جنہیں فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ صوبائی حکومت نے طب (میڈیکل و ڈینٹل) کی تعلیم کے نجی اداروں کو سرکاری ہسپتال ٹھیکے پر دینے کی حکمت عملی (پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ) وضع کر رکھی ہے اور درجنوں ہسپتال نجی شعبے کے حوالے کر دیئے گئے ہیں۔
تجویز یہ بھی ہے کہ طب کی تعلیم میں منشیات کی بحالی کو بھی شامل کیا جائے اور جس طرح community medicine نامی مضمون کے ذریعے ڈاکٹروں کو بیماریوں کے خلاف شعور اُجاگر کرنا سکھایا جاتا ہے بالکل اُسی طرح منشیات کے عادی افراد کی بحالی بھی طب کی بنیادی تعلیم کا حصہ ہونی چاہئے کیونکہ یہ مسئلہ صرف پشاور یا کسی دوسرے ضلع کا نہیں بلکہ پورے ملک کا ہے اور اِس کا براہ راست تعلق ملک کے مستقبل سے جڑا ہوا ہے۔ پشاور میں منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لئے ضلعی انتظامیہ کی زیرنگرانی ایک منصوبے میں 3 بحالی مراکز میں قریب 1300 افراد زیرعلاج ہیں لیکن اِن مراکز کی تعداد اور گنجائش کم ہے جبکہ بحالی کا عرصہ 3 ماہ بھی ناکافی ہے۔ توجہ طلب ہے کہ جب تک منشیات کا حصول و دستیابی ناممکن نہیں کر دی جاتی اُس وقت بحالی مراکز بھی خاطرخواہ مفید (کارآمد) کردار ادا نہیں کر سکتے کیونکہ ہر روز درجنوں کی تعداد میں منشیات کے نئے استعمال کرنے والے منظرعام پر آ رہے ہیں!یہ بات بھی مد نظر رہے کہ کچھ عمومی ادویات جن میں کچھ نہ کچھ نشہ ہوتا ہے جیسا کہ Diazepam‘ Katamine‘ Gravinate‘ Tramal اور Avil وغیرہ بنا ڈاکٹری نسخے حاصل کی جا سکتی ہیں اور علاج کی ایسی ضروری ادویات کا غلط استعمال اور کھلے عام دستیابی پر بھی روک لگنی چاہئے۔