ملت کی مقدر کا ستارہ

شاعر مشرق نے کہا تھا کہ افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر، ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔ عام طور پر لوگ یہ کہتے ہیں کہ اکیلے ان کے محب وطن، ایماندار، دیانت دار، فرض شناس اوراولوالعزم بننے سے کیا ہوتا ہے  جب تک پورا معاشر ہ ٹھیک نہ ہو۔انسانی تاریخ اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ فرد واحد اگر معاشرے کی اصلاح کا بیڑہ اٹھائے اور راستے کے کانٹوں کو اپنے عزم صمیم سے پھلانگ کر منزل مقصود پر پہنچنے کا قصد کرے تو اس کی راہ میں حائل ساری رکاوٹیں ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہیں۔سر سید احمد خان بھی اکیلے نکلا تھا۔سر سلطان محمد شاہ اور نواب محسن الملک نے ان کی تحریک کو آگے بڑھایا۔اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے خواب کو تعبیر کا جامہ پہنایا۔ علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے الگ وطن کا خواب دیکھا۔

محمد علی جناح نے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی ٹھان لی۔لوگ رفتہ رفتہ ان کے قافلے میں شامل ہوتے گئے کارواں بنتا گیا اورچند سالوں کے اندر ہی دنیا کے نقشے پر پاکستان کی صورت میں پہلا نظریاتی اسلامی جمہوری ملک نمودار ہوا۔یہ کچھ افراد ہی تھے جنہوں نے کچھ ایسے مشکل کاموں کا بیڑا اٹھایا جو بظاہر ناممکن تھے پر مسلسل کوشش اور جدوجہد سے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے۔خیبر پختونخوا کے سب سے دور افتادہ اور پسماندہ علاقے چترال سے کچھ عرصہ قبل ایک شخص اُٹھا۔انہوں نے اپنی قوم کے غریب اور ہونہار بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانے کا بیڑہ اٹھایا۔ہدایت اللہ کے پاس کوئی سرمایہ نہ تھا۔بس ایک عزم مصمم تھا کچھ کر گزرنے کا جنون تھا۔انہوں نے ریجنل آرگنائزیشن فار سپورٹ ایجوکیشن (ROSE) کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔چند مخیر لوگوں کو تعلیمی وظائف دینے پر قائل کیا۔مختلف کالجوں، یونیورسٹیوں اور فنی تعلیم کے اداروں سے نادار بچوں کی مفت تعلیم کے لئے کوٹہ حاصل کیا۔

تعلیمی وظائف حاصل کرنے والوں سے ان کا ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے کہ اپنی تعلیم مکمل کرنے اور ملازمت حاصل کرنے کے بعد وہ کسی ایک غریب بچے کو تعلیم دینے کا وعدہ کریں۔گذشتہ دس پندرہ سالوں کے اندر روز فاونڈیشن کی مفت تعلیم سکیم سے 800 سے زائد طلبا و طالبات نے استفادہ کیا۔درجنوں طلبا ایم بی بی ایس، انجینئرنگ، کامرس، کمپیوٹر سائنس اور دیگر علوم میں اعلی ڈگریاں حاصل کرکے باعزت روزگار کما رہے ہیں اور سینکڑوں طلبا و طالبات مختلف اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔ ہدایت اللہ کا ماننا ہے کہ ہماری قوم میں نیک کام میں ہاتھ بٹانے کا جذبہ موجود ہے اگر انہیں اس بات کا یقین ہو کہ ان کی دی ہوئی ایک ایک پائی نیک مقصد کے لئے استعمال ہو رہی ہے تو وہ اپنی کل پونجی لٹانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اور بہت ساری ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں عوامی فلاح و بہبود کے کاموں میں عام لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔