کسی معاشرے کی پائیدار ترقی کا خواب صحت اور تعلیم کے شعبوں میں عروج کے بغیر مکمل و ممکن نہیں ہو سکتا اور جب اِس پیمانے کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک میں متحرک تعلیمی نظام اور صحت کے حوالے سے حکمت عملیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے تو ایک ایسا نتیجہ سامنے آتا ہے جس میں ’فرض شناسی‘ اور ’انسان دوستی‘ پر نظر اندازدکھائی دیتی ہے کیونکہ تعلیم و صحت دونوں ہی کے معیار کا تعلق مالی حیثیت سے ہے اور اِن شعبوں میں کاروباری عنصر غالب ہے یعنی وہ خوبیاں جو صحت و تعلیم سے جڑی ہیں اور جن کے معیار پر زور ہونا چاہئے وہ مفقود ہیں۔صحت اور تعلیم دونوں وہ شعبے ہیں جہاں خدمت اور خلوص کا جذبہ زیادہ کارفرما ہونا چاہئے اور ان شعبوں میں آنے والوں کا مقصد واضح ہونا چاہئے جو بے لوث خدمت ہے۔صحت عامہ اور تعلیم کے شعبوں میں دائمی فراموشی کی وجہ سے یہ شعبے خاطر خواہ ترقی نہیں کرسکے ہیں یا ان کے ثمرات سے عام آدمی پوری طرح استفادہ نہیں کر سکتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نجی شعبے میں تعلیم اور صحت کے حوالے سے نہایت اہم کام بھی کیا ہے اور اس حوالے سے سرکاری شعبے کا ہاتھ بٹایا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں ’علم و تحقیق‘ کی بجائے غیرملکی زبان پر زیادہ زور ہے یعنی انگریزی زبان بولنے‘ سمجھنے اور لکھنے کو اہلیت کا معیار بنا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے تعلیمی مواد‘ تخلیقی صلاحیت‘ تنقیدی سوچ‘ کیریئر کے تقاضوں کی حرکیات‘ اخلاقیات اور حقیقی سماجی و ثقافتی ضروریات پس منظر میں چلی گئی ہیں اور یہی ہمارے نظام تعلیم کی سب سے بڑی کمزوری (خامی) ہے کہ اِس میں مادری زبانوں کی جگہ غیرمقامی و غیرملکی زبان و ثقافت نے لے لی ہے۔ قومی ترجیحات میں تعلیم کے مقصد و اہمیت فراموش کرنے کی وجہ سے ہم دیگر ممالک کے مقابلے میں زندگی کے زیادہ تر شعبوں میں پیچھے رہ گئے ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ تعلیم کی طاقت تمام شعبوں کومضبوط بناتی ہے اور اس کی کمزوری سے تمام شعبہ ہائے زندگی میں خلل واقع ہوتا ہے۔
فیصلہ سازوں اور تعلیم کے شعبے سے وابستہ ماہرین سے پوچھنا چاہئے کہ بھاری اخراجات کے باوجود ہر سال کسی شہر یا ادارے سے کتنے تحصیل یافتہ سائنسدان‘ محقق‘ موجد اور نامور مصنف پیدا ہوتے ہیں؟ یہ تعداد زیادہ نہیں ہے۔ علمی اور پیشہ ورانہ زندگی میں کارنامے انجام دینے والے چند افراد کی کامیابی اُن کی اپنی محنت یا تربیت کے مرہون منت ہے اور اِس میں تعلیمی اداروں کا کردار نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس پر فیصلہ سازوں اور معاشرے کو گہرائی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔تعلیم کی طرح صحت کے شعبے پر بھی کمرشل ازم کا سایہ ہے اور طب میں معیاری علاج معالجے کا بندوبست تعلیم سے دو قدم آگے ہے۔ ملک کے زیادہ تر ہسپتال اور ڈسپنسریاں خدمات کے معیار کو اس مقام پر لے جانے میں کامیاب نہیں ہیں جہاں ایک عام شہری کو اطمینان ہو اور وہ سمجھے کہ اس کے دئیے گئے ٹیکسز کے بدلے میں انہیں معیاری خدمات کی فراہمی ہو رہی ہے۔
ایک ایسا ملک کہ جہاں جعلی ادویات کی بھرمار ہو اور جہاں کم قیمت ادویات کو نت نئے ناموں سے زیادہ داموں فروخت کیا جاتا ہو‘ وہاں ایک عام شہری کیسے مطمئن ہو سکتا ہے۔ تعلیم و صحت کے شعبے میں ان عوامل کی وجہ سے نہ تو قوم خواندہ ہو رہی ہے اور نہ ہی امراض کا علاج ہو رہا ہے بلکہ خواندگی کی بجائے جہالت اور علاج کی بجائے امراض عام ہو رہے ہیں۔ مغربی ممالک کی ترقی اور عروج کی بنیاد میں تعلیم و صحت کا مستعد نظام ملتا ہے‘ جسے معیاری بنانے کے لئے حکومتی نگران ادارے (ریگولیٹری باڈیز) قوانین و قواعد کا بلاامتیاز اور مکمل اطلاق کرتی ہیں اور یہی وہ مرحلہ فکر ہے جہاں کاروباری تراکیب (حکمت عملیوں) کی اصلاح کے لئے نگران اداروں کا کام کاج (استعدادکار و صلاحیت) میں اضافہ کرکے ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے جو ملک و معاشرے کی پائیدار ترقی کا باعث و ضامن ہو۔