قیام امن

ملک میں سیاسی عدم استحکام، معاشی مسائل، بے روزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے اور  جرائم پیشہ عناصر اغوا برائے تاوان، قتل، ڈکیتی اور رہزنی کے علاوہ تخریبی سرگرمیوں میں بھی ملوث ہوئے ہیں‘ دوسری جانب دہشت گردی کے واقعات میں بھی اچانک اضافہ ہوا ہے‘ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران شمالی و جنوبی وزیرستان سمیت ضم اضلاع اور صوبے کے بندوبستی علاقوں میں بھی سکیورٹی فورسز اور پولیس کو نشانہ بنایا گیا ان واقعات میں ایک درجن سے زیادہ اہلکار شہید ہوئے ہیں۔صوبائی حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک غیر فعال ہے‘ ٹی ٹی پی کے ساتھ جاری مذاکرات کی وجہ سے سیز فائر پر بھی عملدرآمد جاری ہے تاہم چند چھوٹے دہشت گرد گروپ بعض جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ مل کر اکا دکا تخریبی کاروائیاں کر رہے ہیں جن کا جلد قلع قمع کیا جائے گا اور ریاستی رٹ کی بحالی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔یہ بات طے ہے کہ دہشت گردی ایک سنگین قومی مسئلہ ہے‘اس پر قومی اتفاق و اتحاد کے بغیر قابو نہیں پایا جاسکتااور قومی سطح پر یکجہتی اور اتحاد کے لئے سیاسی استحکام ناگزیر ہے‘جس کے لئے تمام سیاسی قوتوں کو قومی مفاد میں اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر قیام امن میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔کیونکہ ملک کی سالمیت اور بقاء ہماری سیاست،قیادت، کاروبار، تجارت، تعلقات اور ذاتی مفادات سمیت ہر چیز پر مقدم ہے۔اس نازک مرحلے پر قوم کو مسلک، عقیدے، لسانی، نسلی اور علاقائی تعصبات میں الجھا کر تقسیم کرنا انتہائی خطرناک ہوگا قومی سلامتی کی مروجہ پالیسی پر نظرثانی اور اسے بدلتے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا بھی ضروری ہے۔تاکہ پائیدار امن کے قیام کو یقینی بنایا جاسکے۔ جب امن قائم ہوگا تب ہی قوم ترقی کرے گی‘قیام امن وقت کی اہم ضرورت ہے اس سے ترقیاتی عمل بھی مشروط ہے اس وقت مہنگائی زوروں پر ہے جس کی وجہ سے بیروزگاری میں بھی بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے‘دیکھا جائے تو امن کے قیام میں بے روزگاری بھی ایک اہم عنصر ہے جس کی وجہ سے سٹریٹ کرائمز بھی زیادہ ہونے لگے ہیں۔