تحریک درویشان پاکستان 

سیاست کبھی خدمت کاذریعہ‘ ذہانت کامرقع اور حب الوطنی کاگلدستہ ہواکرتی تھی مگررفتہ رفتہ دیگرشعبوں کی طرح اس میں بھی زوال کے آثار نمودار ہونے لگے اورپھر جو کچھ سیاست کے ساتھ ہوااس پر کچھ لکھنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ سب کچھ قوم کی نگاہوں کے سامنے ہے وطن عزیز میں سینکڑوں جماعتیں اس وقت میدان سیاست میں موجود ہیں چند سال قبل تک تو ان کی تعداد بہت زیادہ تھی بعدازاں سیاسی جماعت کے لئے کچھ قواعد وشرائط رکھی گئیں اور ان پر پورا اترنے والی جماعتوں کو ہی الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ کیاجانے لگا جس کی وجہ سے سینکڑوں کاغذی جماعتیں قصہ پارینہ بن گئیں وطن عزیز میں درددل رکھنے والے صاحبان علم وفیض کی کمی نہیں یہ وہ لوگ ہیں جو موجودہ سیاسی صورت حال پر دل گرفتہ اور آزردہ رہتے ہیں ان کے دل میں قوم کے لئے کچھ کرنے کاجذبہ ہے وہ چاہتے ہیں کہ مروجہ سیاست میں اپنی جگہ بناکر قوم کے شعور میں اضافہ کرکے حقیقی معنوں میں خدمت کی سیاست کاسلسلہ شروع کیاجائے ماضی میں ایسی کئی شخصیات سیاست کے بھاری پتھر کو اٹھانے کی کوشش کرچکی ہیں مگر حقیقت تویہ ہے کہ انہی کاکام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیادہ‘ کچھ عرصہ قبل اخبارات میں ایک نیا نام سننے کو ملا تحریک درویشان پاکستان‘خیال آیا کو ئی مذہبی گروہ کسی مذہبی مقصد کے لئے منظم ہورہاہوگاپھرا یک دن ایک دوست نے ایک تعارفی کتابچہ لاکردیا تو تحریک درویشان سے شناسائی کادر کھلا اورپتہ چلاکہ تحریک درویشان پاکستان کاقیام مروجہ سیاست سے ہٹ کر عمل میں لایا گیا ہے‘ اس کو بطور جماعت مئی 2020ء میں الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ بھی کیاجاچکاہے جس کے بعدتجسس ہواکہ تحریک شروع کرنے والے کون ہیں اور ان کاماضی اورحال کیاہے سو یہاں بھی خوشگوار حیرت ہوئی کہ تحریک کے بانی ڈاکٹر فدامحمد دنیاوی تعلیم وپیشے کے لحاظ سے عالمی شہرت یافتہ ہیں جبکہ تصوف کے ساتھ بھی جڑے ہوئے ہیں انہوں نے خیبرمیڈیکل کالج میں 33سال اوربعدازاں کبیر میڈیکل کالج میں تیرہ سال تدریس کے فرائض انجام دیئے اوریوں ہزاروں معالجین کو حقیقی بنیادوں پر انسانی خدمت کے لئے تیارکرکے میدان میں اتارا اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی زندگی کی اصلاح کرکے ملک وقوم کے مخلص خادم بنانے کے ساتھ ساتھ اسلام کاسپاہی بھی بنادیا ڈاکٹرفدامحمد رشیداحمد گنگوہی اور مولانا اشرف علی تھانوی کے سلاسل تصوف میں اجازت یافتہ ہیں 72سالہ عمر میں سے سینتالیس برس پشاوریونیورسٹی کی مدینہ مسجد میں اعزازی جمعہ پڑھاتے رہے‘ پانچ مرتبہ پشاوریونیورسٹی میں دورہ تفسیر مکمل کیا جس میں اساتذہ اورطلبا شریک ہوتے رہے تین بار احیاء العلوم از حضرت امام غزالی کادرس دیا ان کی پچاس سالہ تحاریر وتقاریر پر مشتمل آٹھ کتب شائع ہوچکی ہیں انہوں نے جب تحریک درویشان پاکستان کی بنیاد رکھی تو ان کے سامنے یقینا بلندمقاصد تھے اوران مقاصد کے حصول کے لئے انہوں نے ایک پالیسی ترتیب دی گویا تحریک درویشان پاکستان کامقصد ان پالیسی اصولوں کے مطابق ملک کو فلاحی مملکت بناناہے تحریک کے لئے جو بنیادی پالیسی وضع کی گئی ہے اس کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ساتھ وفاداری بنیادی شرط ہے پالیسی کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کو عموماًاور اس کی پہلی شق کو خصوصاً عملی طورپر نافذکرنا یعنی ملک کو حقیقی معنوں میں اسلامی جمہوری فلاحی مملکت بنانے کے لئے بھرپور کوششیں کی جائیں گی اسی طرح ملک میں قانون کی عملداری امن وامان کی بحالی اور معیشت کی خوشحالی کویقینی بنانے کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت  نہیں کیاجائے گا پالیسی اصولوں کے مطابق مروجہ سیاست کے برعکس ایسی سیاست کی بنیاد رکھنے کی بات کی گئی ہے جو امانت،دیانت،صداقت،شجاعت،تواضع،اخلاص اور خدمت خلق کی بنیادوں پر استوار ہوگی ایک اہم نکتہ کرپشن کے ذریعہ ہڑ پ کئے گئے پیسوں کی واپسی کابھی ہے اس کے مطابق ملک کالوٹاہوا پیسہ بہرصورت ملک میں واپس لایا جائے گا تحریک کے اغراض میں خارجہ پالیسی کوبھی بنیادی جگہ دی گئی ہے چنانچہ پالیسی اصولوں کے مطابق امت مسلمہ کے ساتھ اسلامی شریعت کی روشنی میں تعلقات کو بہتر بنایاجائے گا اورسب سے بڑھ کرجواہم نکتہ پالیسی کاحصہ ہے اس کے مطابق ایسے لوگوں کو ملک چلانے کے لئے آگے لانا جومخلص،ماہرا ورخدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہوں یہاں سب سے اہم لفظ ماہر کاہے کیونکہ ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ کرسی کے لئے اہل آدمی کے بجائے نااہل لوگوں کے لئے کرسیاں تلاش کی جاتی ہیں اوریہی ہمارے ہاں خرابی کی اصل جڑ ہے ڈاکٹر فدا محمدکی شروع کردہ تحریک درویشان پاکستان کے مطابق تحریک سے جڑا ہرشخض درویش کہلائے گا ان مردان درویش کے لئے بعض امور لازمی قراردیئے گئے ہیں جس کے مطابق درویش ہمیشہ تحریک کے بنیادی اصولوں امانت،دیانت،شجاعت،اخلاص،تواضع،خدمت اورسخاوت کو اپنا نصب العین بنائے گا اور ان پر کاربندر ہے گا اسی طرح درویش کبھی ظلم نہیں کرے گا صوم وصلواۃ کاپابندرہے گا روزانہ کوئی نہ کوئی خدمت انجام دیگا گویا سیاست میں داخلہ کے ساتھ ہی درویشوں کو خدمت خلق کاعملی مظاہرہ کرکے دکھاناہوگا اوریہ سب اہم نکتہ ہے جس پر ہمارے ہاں بہت کم توجہ دی جاتی ہے یہاں توسیاسی کارکنوں کو محض جلسوں اورووٹوں کے لئے رکھا جاتاہے ان میں خدمت خلق کاجذبہ کیسے پیداہوگا اس پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے وگرنہ اگر تمام سیاسی جماعتیں یہی ایک اصول اپنے اپنے کارکنوں پر لاگو کریں تو انداز ہ کریں کہ ملک میں ہر روز خدمت خلق کے کتنے چھوٹے بڑے امور سرانجام دیئے جاسکیں گے‘ ساتھ ہی اہم ترین پابندی بھی درویشوں پرعائد کی گئی ہے جس کے مطابق درویش ہرروز کم سے کم دس لوگوں کو نیکی کی بات کرے گا سابقہ نکتے کی طرح یہ بھی بہت دلچسپ نکتہ ہے اور اگر اس کو بھی تمام سیاسی جماعتیں اپنا لیں تو سماجی نفرتیں ختم کرنے میں کس تیزی کے ساتھ کامیابی حا صل کی جاسکتی ہے یہ سمجھنا کو ئی بہت مشکل اورپیچید ہ امر ہرگز نہیں اسی طرح درویش کے لئے لازمی قراردیاگیاہے کہ وہ معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کو حسب توفیق ہاتھ سے،زبان سے،دل سے روکے گا ایک دلچسپ نکتہ ان درویشوں کے لئے بھی ہے جن کا تعلق کسی اور مذہب سے ہوان پر لازمی ہے کہ وہ صوم وصلواۃ کے علاوہ باقی تمام اصولوں پر کاربند رہے گا‘ تحریک درویشان پاکستان تازہ ہوا کاجھونکا تو قراردیاجاسکتاہے تاہم اب یہ درویشوں کی استقامت کی آزمائش ہے کہ وہ موجودہ سیاست کارخ بدلنے میں کس طرح کامیابی  حاصل کرتے ہیں۔