غیرمحفوظ شاہراہیں 

عالمی ادارہئ صحت کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال اوسطاً قریب 30 ہزار افراد ٹریفک حادثات کا شکار ہونے کی وجہ سے جاں بحق ہوتے ہیں اور ٹریفک حادثات کے باعث اِس بلند شرح اموات کی وجہ سے پاکستان 199 دیگر ممالک کی فہرست میں 95ویں نمبر پر ہے رواں ہفتے ملتان اور روہڑی کے قریب دو الگ الگ حادثات میں کم از کم اٹھائیس افراد موت کے منہ میں گئے‘ سولہ اگست کی صبح ملتان سکھر موٹروے (ایم فائیو) پر مسافر بس اور آئل ٹینکر کے درمیان تصادم کے نتیجے میں آگ لگنے سے بیس افراد جان کی بازی ہار گئے بس لاہور سے کراچی جارہی تھی کہ جلال پور پیر والا انٹر چینج کے قریب پیچھے سے آنے والے آئل ٹینکر سے ٹکرا گئی‘ اگر آگ نہ لگتی تو شاید اس حادثے کے زخمیوں کی زندگیوں کو بچایا جا سکتا تھا  مذکورہ حادثے سے چند گھنٹے قبل روہڑی (صوبہ سندھ) کے قریب موٹر وے پر تیزرفتاری کے باعث مسافر کوچ الٹنے اور کھائی میں گرنے سے کم از کم آٹھ افراد جان کی بازی ہار گئے اور بیس سے زائد زخمی ہوئے۔سب جانتے ہیں کہ آئل ٹینکرز ہزاروں لیٹر پیٹرول لے جاتے ہیں  بہت سے ٹرانسپورٹرز آئل ٹینکرز کی مناسب دیکھ بھال اور مرمت نہیں کرتے غیرملکی گاڑیوں پر مقامی تیارشدہ آئل ٹینک (باڈیز) نصب کئے جاتے ہیں اور اِن باڈیز کو بنانے کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے کی بجائے کم سے کم داموں میں ذرائع کی تلاش کی جاتی ہے جو قطعی طور پر محفوظ نہیں ہوتی‘ تصور کیا جا سکتا ہے کہ ہزاروں لیٹر تیل کی نقل و حمل کرنے کیلئے جن قواعد اور حفاظتی تدابیر کی ضرورت ہوتی ہے‘ اُن کا خاطرخواہ لحاظ نہیں رکھا جاتا‘ اِسی طرح مسافر بسوں (پبلک ٹرانسپورٹ) میں گنجائش سے زائد مسافروں کو سوار کیا جاتا ہے‘پبلک ٹرانسپورٹ کو سستے ایندھن سے چلانے (یعنی زیادہ منافع کیلئے) مائع گیس (سی این جی) استعمال کی جاتی ہے جس کے سلنڈرز مسافروں کی نشستوں کے نیچے نصب کئے جاتے ہیں اور یہ قواعد کے مطابق غیرقانونی ہے‘یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ آئل ٹینکرز اور پبلک ٹرانسپورٹ کے ڈرائیورز کو کم معاوضہ دیا جاتا ہیتازہ ترین حادثات سے متعلق ابتدائی تحقیقات کے مطابق ڈرائیور کی آنکھ لگ گئی تھی۔ پبلک ٹرانسپورٹ کمپنیاں جو اپنے اخراجات کم اور منافع زیادہ کرنے کی خواہاں ہوتی ہیں‘ ڈرائیوروں سے زیادہ دورانئے کام لیتی ہیں جبکہ ڈرائیوروں کی مزدور یونین نہ ہونے کی وجہ سے اُن کے حقوق اور مشکلات کا ذکر بھی نہیں کیا جاتا‘ضرورت اِس امر کی ہے کہ ڈرائیوروں کو بھی انسان سمجھتے ہوئے اُن کے ملازمتی حالات اور اوقات کار کو قابل برداشت بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں نیز سالانہ بنیادوں پر ڈرائیوروں کی تعلیم و تربیت اور اِن کے طبی معائنے کو لازم قرار دیا جائے‘ مقام حیرت ہے کہ کھیل کے مقابلوں میں حصہ لینے سے قبل کھلاڑیوں کے ڈوپ ٹیسٹ کئے جاتے ہیں کہ کہیں اُنہوں نے کوئی نشہ آور شے کا استعمال تو نہیں کیا لیکن اپنی اور دیگر درجنوں انسانی جانیں تیزرفتار پہیوں پر لئے پھرنے والے ڈرائیورز کے جسمانی و ذہنی طور پر صحت مند اور نشے سے دور رہنے کو ضروری نہیں سمجھا جاتا؛ اِسی ”سنگین لاپرواہی“ کی وجہ سے خوفناک ٹریفک سانحات رونما ہوتے ہیں اور قوم ہر حادثے کے بعد دوسرے حادثے کا دکھ سہنے کیلئے انتظار کرنے لگتی ہے یہ بات بھی لائق افسوس ہے کہ ٹریفک حادثات کے بعد روایتی بیانات اور تحقیقات کی جاتی ہیں جن میں مرنے والوں ہی کو موردالزام ٹھہرا کر گلوخلاصی کر لی جاتی ہے‘ ہر ٹریفک حادثے کے بعد حکومت کی جانب سے مرنے والوں کے غمزدہ لواحقین اور زخمی ہونے والوں کو مالی مدد دے دلا کر خاموش کروا لیا جاتا ہے‘ اِس طرزعمل کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور کسی ٹریفک حادثے کیلئے ہائی ویز اور موٹرویز پر موجود پولیس اہلکار بھی ذمہ دار ٹھہرائے جانے چا ہئیں جو بسوں اور ٹرکوں کی فٹنس‘ اِنہیں چلانے والوں کی جسمانی و ذہنی صحت کا طبی معائنہ لازم قرار نہیں دیتی اور نہ ہی گاڑی کی فٹنس جانچ کو ضروری سمجھا جاتا ہے ٹریفک حادثات روکنے کیلئے جامع حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے‘ آئل ٹینکرز کیلئے علیحدہ راہداریاں اور گزرگاہیں مقرر کی جانی چاہئیں‘دوسرا آئل ٹینکرز کی زیادہ سختی سے جانچ (چیکنگ) ہونی چاہئے کہ یہ اپنی ساخت کے لحاظ سے اِس قدر مضبوط ہیں کہ وزن اور ہزاروں لیٹر مائل ایندھن یا گیس کی ترسیل کا بوجھ اٹھاتے ہوئے ایک خاص حد سے زیادہ رفتار کے ساتھ سفر کر سکیں؛ پاکستان میں بس ٹرانسپورٹ سے متعلق قواعد و ضوابط پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے جس میں ڈرائیوروں کی بجائے ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے مالکان پر بھی فرد جرم عائد کی جا سکے‘قومی شاہراہوں پر رونما ہونیوالے سانحات روکنے کیلئے بہت کچھ کرنے اور کم سے کم موجود قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔