وہ جو ایک مستقل شکایت پشاور کے باسیوں کو مون سون کے بادلو ں سے رہتی تھی کہ ان کا پھیرا پشاور اور قرب جوار کے علاقوں کی طرف نہیں لگتا اور پھر یکے بعد دیگرے کئی ساون اور بھادوں سوکھے ہی گزر جاتے تھے اطراف سے بارش کی خبریں ملتیں مگر پشاور کے حصے میں کبھی کبھی تو بوندا باندی تک بھی نہیں ہوا کرتی تھی موسمیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ مون سون کی ’گزرگاہ‘ یا پٹی پشاور سے دس منٹ کی دوری پر واقع ”پبی“ کے قصبے تک سیدھا آکر جنوب کی طرف مڑ جاتی ہے جس طرف چراٹ کے پہاڑوں کا سلسلہ ہے لیکن اب کے ساون بھادوں نے مہربانی کی اور پشاور کے حصے کے آسمان پر بادلوں کو بھرے چھاگلوں کے ساتھ ڈیرے ڈالنے کی اجازت دی،جس سے ساون بہت بھیگا بھیگا گزرا ہے اب بھادوں بھی بوندا باندی اور پھوار سے لے کر ایک آدھ بوچھاڑ والا چھینٹا بھی پڑا، آنیوالے ہفتہ عشرہ تک کیلئے بھی یہی پیشگوئی کی گئی ہے، اب سوچتا ہوں تو گنتی کے چند دن ہی گرما کے اس موسم کے ایسے گزرے جب سورج کی حدت اور حبس کی شدت نے قدرے پریشان رکھا ورنہ جیٹھ اور ہاڑ بھی معتدل گزرے اور اب ساون بھادوں بھی مہربان ہیں وہ جو سنتے ہیں کہ عالمی سطح پر موسم تبدیلی کی زد میں ہے، اسکے اثرات ہمارے شب روز پر بھی پڑ رہے ہیں اب موسم سرما میں بھی تادیر گرم کپڑے منتظر ہی رہتے ہیں اور اگر کبھی پالا پڑے تو بھی ہلکے پھلکے گرم کپڑوں میں گزارا ہو جاتا ہے، کبھی ہم فرغل،چغہ، چسٹر اور اورکوٹ پہن کر خود کو سردی کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار کرتے تھے گزشتہ دو ایک جاڑوں سے اب انہیں بھی وارڈروب سے نکالنے کی ضرورت پیش نہیں آتی، شاید ہم بھی ان موسموں سے قدرے لا تعلق ہو گئے ہیں کیونکہ اب ہمارے پکوان بھی اس طرح نہیں رہے جس طرح ہم ان موسموں سے رومان کرتے ہوئے پکوان بنا یا کرتے تھے، نہ اب برسات میں ہم سیر گل کو جاتے ہیں نہ اب پھاگن کی بارشوں میں یا روں کی ٹولیاں مل کر گرم گرم حلوہ حجروں اور بیٹھکوں میں بناتے ہیں، برسات کے موسم کے ساتھ باغوں میں جھولوں کا جو ایک تصور ہے اسے تو بھلائے ہوئے تو کئی یگ بیت گئے، اب تو خیر وہ باغ ہی نہیں رہے تو جھولے اور پینگیں کیا پڑیں گی اب ہم ”پارکوں“ کا رخ کرتے ہیں وہاں مشینی جھولوں کا راج ہے اور رم جھم پھوار پڑ نے لگے تو یار لوگ بھاگ کر کسی سائبان تلے پناہ لیتے ہیں اب بارش میں صرف کسی فلم کی ہیروئن بے چاری ہی بھیگتی نظر آتی ہے کبھی کبھی ہیرو بھی اسکا ساتھ دینے بارش میں شرابور ہو کر گانے لگتا ہے ”رم جھم گرے ساون، سلگ سلگ جائے من“ اور چھوٹی بڑی سکرین پر ہم اسے دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں کہ ہم نے بھی برسات منا لی اب کون احباب کو اکٹھا کرے،کنار آب جائے یا کھیتوں کھلیانوں کا رخ کرے یا پہاڑوں کے سفر پر نکل پڑے اب اگر کوئی پہاڑوں کی طرف جانے کا سوچتا بھی ہے تو بارونق علاقوں کی طرف نکل جاتا ہے جہاں موسم تو ضرور ٹھنڈا ہو تا ہے مگرفطرت سے مکالمہ نہیں ہو پاتا، مری جیسے شہر جانے کی ساری دلکشی ”مال روڈ“ پر گھومنے سے مشروط ہوتی ہے اور وہاں بھی اچانک ہونیوالی بارش سے بھاگ کر یار لوگ ریستوران اور ہوٹلوں میں پناہ لیتے ہیں لیکن غنیمت ہے کہ ”ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں“ جب بھی روزمرہ کی یکسانیت سے تنگ آ جاتے ہیں تو یار ِ مہرباں میجر عامر کو ہم یا ہمیں میجر عامر آواز دیتے ہیں کہ دریائے سندھ کی جھیل کنارے کا گوشہئ سکون الموسوم بہ نیسا پور یاد کر رہا ہے اور مجھے تو اس بات کا یقین اسلئے آ جاتا ہے کہ میں نے بارہا کہا اور لکھا ہے کہ جب ہم کسی خوبصورت علاقے یا منظر کو دیکھنے کے بعد اسکے حسن سے اپنی تنہائیوں کو مہکاتے اور گرماتے ہیں تو یہ محبت اور ٹیلی پیتھی کسی صورت یک طرفہ نہیں ہو سکتی وہی علاقہ اور منظر ہمیں بھی ’مِس‘ کر رہا ہوتا ہے اور اس جذبے کی ڈوری سے ہم کھچے ہوئے بار ِ دیگر وہاں پہنچ جاتے ہیں
شب ِ مہ جھیل کی رعنائیاں آواز دیتی ہیں
چلے آؤ، چلے آؤ تمہیں سب یاد کرتے ہیں
نئے زمانے کے نئے تقاضوں نے لوگوں کو بہت مصروف کر دیا ہے انہیں بڑی حد تک موبائل فون نامی ایک چھوٹی سی ڈیوائس نے یرغمال بنا لیا ہے اور ایک ”محصور شخص“ کیلئے تنہائی پسند (انٹرو ورٹ) ہونے کے علاوہ کوئی اور راستہ بھی نہیں ہو تا اسلئے دوستوں سے ملاقات کو آکسیجن جتنا ناگزیر سمجھنے والے احباب کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے، گزشتہ کل ہی ہمدم ِ دیرینہ اعجاز احمد قریشی پشاور آئے تو دو چار احباب کو ظہرانے پر بلا لیا اور یہ پہلا موقع نہیں وہ پہلے بھی پشاور آ کر اور اپنے فرائض منصبی سے فراغت پاتے ہی کسی بہانے احباب کیساتھ ملاقات کا ڈول ڈالتے رہے ہیں میں بھی اور دوستوں کی طرح بہت حیران ہو تا ہوں کہ اعجاز
احمد قریشی ا پنی تمام تر سرکاری مصروفیات کے اور شب روز اپنے ہم وطنوں کی مشکلات کو کم کرنے اور ختم کرنے کیلئے نت نئے اور غیر روایتی طریقوں کو اپنانے میں مگن رہتے ہوئے بھی اپنے گزشتہ کل کے دوستوں کو نہیں بھولتے اور ان سے ملنے کیلئے پچیسواں گھنٹہ نکال ہی لیتے ہیں گزشتہ کل بھی ایسا ہی ہوا اور میرے دل کے بہت قریب صحافی دوست محمد ریاض بھی موجود تھے جسے مل کر مجھے وہ ہمیشہ بلا کا مہذب اور مؤدب شرمیلا سا لڑکا یاد آجاتا ہے جب وہ پہلے پہل میدان صحافت میں آیا تھا اور ایسا تھا مگر اپنے شعبہ میں ایک معتبر نام اور مستند مقام حاصل کرنے کے بعد آج بھی مجھے ایسے ملتا ہے جیسے ابھی ابھی سکول سے نکلا ہو، انکے علاوہ دوستان ِ عزیز کالم نگار ضیا ء الحق سرحدی، عدیل سعید،زاہد حفیظ اور یارِ مہربان آصف نثار غیاثی کیساتھ ساتھ کچھ اور دوست جن میں باچہ گل وزیر اور بختیار گل بھی تھے جو وفاقی محتسب کے پشاور باب سے تعلق رکھنے والے محبتی دوست ہیں، اعجاز احمد قریشی ان دنوں ”وفاقی محتسب“ کے بڑے عہدے پر فائز ہیں وہ خیبر پختونخوا میں چیف سیکرٹری کے عہدے پر بھی فائز رہے ہیں اور اس میں دوسری کوئی رائے ہو ہی نہیں سکتی کہ وہ زمانہ ہر شعبہ کیلئے یادگار اور شاندار دور تھا، میں اگر صرف ادب کے شعبہ کی بات کروں تو جتنی اہمیت ادب کو اس دور میں ملی اور جتنی بڑی تقریبا ت کا انعقاد انکے دور میں ہوا پاکستان بھر سے قد آور تخلیق کاروں کو یہا ں مدعو کیا گیا نہ اس سے پہلے کوئی مثال ہے اور نہ انکے بعد کوئی ادب کا پرسان حال ہوا، بلکہ اب تو ”کس نہ می پرسد کہ بھیا کیستی“ یہ جو میں نے ابھی اعجاز احمد قریشی کے اپنے لوگوں کے مسائل حل کرنے کیلئے نت نئے اور غیر روایتی طریقوں کی بات کی تو وہ یوں ہے کہ جب کام نہ ہونے کی شکایت لوگوں کو ان اداروں سے ہوتی ہے جو وفاقی محتسب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے اور وہ ان سے مدد مانگتے ہیں وہاں وہ اپنی ذاتی حیثیت سے اور اپنے ”ذاتی اثر و رسوخ“ سے کام لیتے ہوئے انکے مسائل حل کر دیتے ہیں اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ ان مسائل اور شکایات کو کتنے احسن طریقے سے اور جلد از جلد انجام دیتے ہونگے جو انکے دائرہ اختیار میں ہیں گویا اعجاز احمد قریشی صرف ”دوستوں کے دوست“ نہیں بلکہ اپنے سارے ہم وطنوں کے دوست ہیں جن کی شکایات اور مشکلات ختم کرنے کیلئے انہوں نے تھوڑے عرصہ میں ریکارڈ کام کئے ہیں مجھے لگتا ہے اعجاز احمد قریشی نے حفیظ جونپوری کا یہ شعر پلے باندھ رکھا ہے اور اسی پر عمل پیرا ہیں۔
آدمی کا آدمی ہر حال میں ہمدرد ہو
اک توجہ چائیے انساں کو انساں کی طرف