2018ء اور 2020ء میں بھی پودے درآمد کئے گئے ہیں‘ جنہیں زرعی تحقیقی مراکز میں لگائے گئے ہیں لیکن ابھی حکومت نے اِس پودے کی قیمت مقرر نہیں کی۔ ایک پودہ قریب 2 سے 3 سال جڑیں پکڑتے ہیں اور تب اِنہیں اکھاڑ کر کسی بھی جگہ لگایا جا سکتا ہے۔ زرعی تحقیقی مراکز میں ڈھائی سے تین سال کا پودا جب فروخت کیا جائے گا تو یہ اگلے ڈھائی سے تین سال میں پھل دینے لگا گا لیکن اگر کوئی کاشتکار چھوٹے بڑے پیمانے پر عجوہ کی باغبانی کرنا چاہتا ہے تو اُسے پہلا پھل حاصل کرنے میں پانچ سے سات سال لگ سکتے ہیں۔ کھجور کے درخت کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اگر اِسے کسی بھی باغ جیسا کہ امرود یا سیب یا گلاب کے باغ میں پودوں کے درمیان لگایا جائے تو دیگر پودوں کی دھوپ یا ہوا روک کر اُنہیں متاثر نہیں کرتے اِس لئے ایک باغ میں دیگر پھلدار پودوں کے ساتھ کھجور لگائی جا سکتی ہے۔ اور عجوہ نامی کھجور کی قسم طبی خصوصیات و فوائد کے باعث تین سے پانچ ہزار روپے‘ فی کلو گرام تک فروخت ہوتی ہے جبکہ اِس کی گھٹلی کو پیس کر دل کے امراض میں بطور دوا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔دیگر پھلوں کی طرح عجوہ کھجور کا بیج بھی اِسی کے اندر ایک گٹھلی میں ہوتا ہے جسے کھجور کے گودے سے علیحدہ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
صاف شدہ گٹھلی کو ’ٹشو پیپر‘ میں لپیٹ کر اور ٹشو پیپر پر پانی چھڑک کر اِسے 15 دن (کم سے کم 12 دن) تک ایک ہی حالت میں رکھ دیں۔ بہتر ہو گا کہ کسی پلاسٹک کے شاپنگ بیگ میں اِسے لپیٹ کر رکھیں تاکہ ٹشو پیپر پر چھڑکاؤ کیا گیا پانی خشک نہ ہو۔ ذہن نشین رہے کہ ٹشو پیپر والے کاغذ میں پانی جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے اِس لئے کھجور کی گٹھلی کو کسی بھی قسم کے ٹشو پیپر میں لپیٹ کر اُس وقت تک رکھا جاتا ہے جب تک اِس کی کونپلیں نہ پھوٹ پڑیں۔ عموماً 12 دن بعد دیکھنے پر‘ ہر گھٹلی سے سفید رنگ والی انتہائی نازک کونپلیں پھوٹ پڑیں گی اور اُس وقت ٹشو پیپر کا پانی بڑی حد تک خشک ہو چکا ہوگا۔ جو ننھی کونپلیں پھوٹی ہوں گی اُن کے کچھ حصے اگر ٹشو پیپر سے چپکے نظر آئیں تو اُنہیں انتہائی نرم ہاتھ سے علیحدہ کرنا ہے تاکہ وہ گٹھلی سے ٹوٹ کر الگ نہ ہوں۔ ایسی صورت میں پودہ ناکارہ ہو جائیگا۔ کونپلیں پھوٹنے کے بعد ایک چھوٹے گملے میں نرسری تیار کی جائے گی جس کے لئے خاص قسم کی مٹی بنانا ہو گی۔ یہ مٹی 3 اجزأ کا مرکب ہوگی۔ 50 فیصد کوکوپیٹ (Cocppeat)‘ 25 فیصد صاف کی ہوئی ریت (Fine sand) اور 25فیصد کمپوزیٹ (Compost) کھاد کو آپس میں ملا کر مٹی حسب ضرورت مقدار میں تیار کی جائے گی۔ مٹی گملوں میں بھر کر کھجور کی ہر گٹھلی جس کی کونپلیں نکل چکی ہیں اُنہیں گملے میں انگلی کے ایک پور تک گہرائی میں دفن کر دیں۔ کونپل کو اوپر کی سمت رکھنا ہے اور گملوں کو کسی ایسے گہرے برتن میں رکھیں جسے پانی سے بھرا جائے تو گملے کے پیندے میں پانی کھڑا رہے۔
گملے پر ہلکا سا پانی چھڑک کر اسے کسی ہوا دار‘ سایہ دار جگہ پر رکھ دیں اور 28 سے 30 دن بعد اِس میں سے کونپلیں پھوٹ کر مٹی سے نکل آئیں گی۔ کھجور کا یہ پودہ اب زمین میں لگانے کے لئے تیار ہے۔ ذہن نشین رہے کہ کھجور کے پودے میں صرف مادہ پودے پر کھجور لگتی ہے اور باغ میں مادہ پودوں کے ساتھ نر پودوں کا بھی ایک خاص تناسب سے ہونا ضروری ہے ورنہ پھل نہیں لگے گا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب کھجور کی گٹھلی سے عجوہ یا کسی بھی کھجور کا بیج حاصل کیا جاتا ہے تو اُس میں زیادہ تر نر پودوں کے بیج ہوتے ہیں۔ مادہ پودے کے ساتھ ڈھائی سے تین سال بعد بچے بھی لگتے ہیں اور یہ بچے بعدازاں باغ میں پودوں کی تعداد بڑھانے کے لئے استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ کھجور کا پودا اگر گھٹلی کے ذریعے لگایا جائے تو یہ زیادہ مقدار میں پھل دیتا ہے اور عموماً عجوہ کھجور کا ایک پودہ پانچ سے چھ سال بعد پھل دینا شروع کر دیتا ہے۔ پاکستان میں عجوہ کھجور کی باقاعدہ فارمنگ ایک حکومتی منصوبے کے تحت 2015ء میں شروع ہوئی‘ جب متحدہ عرب امارات سے عجوہ کے ’ٹشو کلچر‘ پودے منگوائے تھے جو صحیح النسل پودے تھے اور اِن کی باقاعدہ سائنسی بنیادوں پر‘ زرعی ماہرین کی زیرنگرانی کاشت کی گئی۔ خوش قسمتی سے پاکستان کے کئی علاقے جن میں خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع بھی شامل ہیں عجوہ کھجور کی کاشت کے لئے موزوں آب و ہوا اور مٹی رکھتے ہیں۔ نجی سطح پر عجوہ کھجور کا باغ گھٹلی سے لگایا جا سکتا ہے اگرچہ یہ طریقہ کچھ محنت طلب اور زیادہ وقت طلب ہے لیکن اِس سے فی پودا پھل بھی نسبتاً زیادہ حاصل ہوتا ہے۔
کھجور فارمنگ منافع بخش ہے۔ اِس کاشتکاری میں کھاد‘ زیادہ پانی اور دیگر پھلدار پودوں کی نسبت دیکھ بھال کی بھی کم ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں 32 قسم کی کھجوروں پر تحقیق جاری ہے۔ گھٹلی کے ذریعے پودے لگائے جا سکتے ہیں۔ ایسا پودے کی 8 سے 10 سال کے عرصے میں نر اور مادہ کی شناخت ہوتی ہے۔ گٹھلی سے کھجور کی کاشت (Germination Farming) کی بجائے اگر قریبی زرعی تحقیق مراکز سے رجوع کیا جائے اور کسی علاقے کی آب و ہوا کے مطابق پودے حاصل کئے جائیں تو یہ ’تجرباتی کاشتکاری‘ کے مقابلے بہتر و مناسب ہے۔ خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع (بالخصوص ڈیرہ اسماعیل خان) میں 2 لاکھ 56 ہزار مربع ایکڑز (ایک لاکھ ہیکٹرز) سے سالانہ 11 ہزار ٹن کھجور حاصل کی جاتی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایگریکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ 1958ء سے کام کر رہا ہے جس کے کارہائے نمایاں میں سیراب اور غیر آبپاشی والے علاقوں کے لئے اناج کی فصلوں کی 13 اقسام تیار کی گئیں ہیں۔ چاول کے کھیت میں پانی کے وسائل کے تحفظ کی ٹیکنالوجی اور گندم کی دو امید افزا لائنیں دوہزارسولہ میں رجسٹر کرائی گئی ہیں۔ وقت ہے کہ عجوہ کھجور کی خیبرپختونخوا میں کھجور کی کاشت کے علاقوں میں فارمنگ کی جائے اور اِس سلسلے میں انتہائی گرم جنوبی اضلاع کے علاؤہ چارسدہ‘ مردان اور صوابی کی پٹی میں بھی منافع بخش ’کھجور فارمنگ‘ پر توجہ دینی چاہئے۔