خیبر پختونخوا کا دور افتادہ علاقہ چترال پے در پے قدرتی آفات کی زد میں ہے۔اپر اور لوئر چترال کے چار مقامات پر سیلاب کی تازہ ترین لہر میں دس قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔یارخون اور بروغل کا ملک کے دیگر حصوں سے زمینی رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔لوئر چترال کے علاقہ شیشی کوہ میں سیلاب سے خواتین اور بچوں سمیت آٹھ افراد لقمہ اجل بن گئے وادی کالاش کے علاقہ رمبور اور بمبوریت میں بھی سیلاب نے تباہی مچادی۔اپر چترال کے علاقہ بریپ میں کئی رہائشی مکانات اور ان گھروں میں موجود مال مویشی اور کروڑوں کا گھریلو سامان بھی سیلاب برد ہوگیا۔آوی کے قریب دومادومی میں دریا کی طغیانی سے تین چھوٹے بجلی گھر، ایک درجن رہائشی مکانات، دو پائپ لائنیں اور تین رابطہ پل بہہ گئے تاریخی گاؤں ریشن میں بھی سیلاب سے بجلی گھر روڈ اور پانچ رابطہ پل تباہ ہوگئے۔
دوسری طرف دریا کے کٹاؤ سے ریشن کا ایک چوتھائی حصہ دریا برد ہوچکا ہے۔رہائشی مکانات تباہ ہونے سے کم از کم تیس خاندان کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ دریا کے کٹاؤکی وجہ سے شادیر کے مقام پر اپر چترال کا زمینی رابطہ بھی منقطع ہوچکا ہے۔جن لوگوں نے پچھلے سال متبادل سڑک کی تعمیر کے لئے اپنے مکانات، زرعی اراضی اور باغات حکومت کے حوالے کئے تھے انہیں اب تک معاوضہ بھی نہیں دیا گیا۔چترال میں حالیہ سیلاب سے مالی نقصانات کا محتاط تخمینہ ایک ارب سے زیادہ لگایا گیا ہے۔سب سے زیادہ نقصان لوئر چترال میں قیمتی عمارتی لکڑی کا ہوا ہے۔کروڑوں روپے کی عمارتی لکڑی جنگلوں میں ندی کناروں پر جمع کی گئی تھی جنہیں سیلاب بہا لے گیا۔اس سال جون سے اب تک اپر اور لوئر چترال کے 80 دیہات سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں ان میں سے ایک درجن علاقے صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔
وزیر اعلی نے چترال میں سیلاب سے جانی و مالی نقصانات کی رپورٹ طلب کی ہے۔صوبائی حکومت اگر چترال کو آفت زدہ علاقہ ڈکلیئر کرکے اور وہاں ہنگامی بنیادوں پر ریسکیو، امداد اور بحالی کی سرگرمیاں شروع کرے تو متاثرین کو ریلیف مل سکتا ہے۔ زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم اور کھلے آسمان تلے پڑے ہوئے متاثرین کی بحالی کے لئے اس وقت ہنگامی بنیادوں پر عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔اس سال مون سون میں ملک بھر میں زیادہ جانی اور مالی نقصانات کا سامنا ہے اور ماہرین اسے موسمیاتی تبدیلی کانام بھی دیتے ہیں ہیں تاہم اس تمام تناظر میں یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ ہم نے حالات کی مناسبت سے کیااقداما ت کئے ہیں اور مستقبل کے حوالے سے کیا منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ قدرتی آفات کو ٹالا نہیں جا سکتا تاہم اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی اور مالی نقصانات کو کم کیا جاسکتا ہے۔اس وقت دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی کو مد نظر رکھتے ہوئے تیاریاں کی جارہی ہیں اور اسے ایک ٹھوس حقیقت کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ اس ضمن میں مربوط اور منظم منصوبہ بندی کی جائے اور اس میں تمام متعلقہ محکموں سے ان پٹ لینا ضروری ہے۔اسی صورت میں موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ ممکن ہے۔