حکومت نے بیرونی ممالک سے سامان تعیش منگوانے پر عائد پابندی اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے وزیرخزانہ کا کہنا ہے کہ ہم سامان تعیش باہر سے منگوانے پر پابندی نہیں اٹھانا چاہتے تھے مگر آئی ایم ایف کا اصرار تھا کہ جو لوگ استطاعت رکھتے ہیں ان کی حوصلہ شکنی مناسب نہیں۔چونکہ ہم نے آئی ایم ایف سے ڈیڑھ ارب ڈالر قرضہ لینا ہے اس لئے ان کی کسی بات کو رد کرنے کا رسک نہیں لے سکتے۔وزیر خزانہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو لوگ قیمتی گاڑیاں، گھڑیاں، آئی فون، سامان آرائش و زیبائش درآمد کرنا چاہتے ہیں ان پر چار سو سے چھ سو فیصد تک اضافی ٹیکس لگایا جائے گا۔چونکہ شوق دا کوئی مول نہیں۔ شوقین لوگ قیمت نہیں دیکھتے۔ وہ بخوشی اضافی ٹیکس بھی دیں گے جس سے ملک کو فائدہ ہو گا۔آئی ایم ایف سمیت قرضہ دینے والے کسی ملک یا ادارے نے یہ شرط کبھی نہیں رکھی کہ لوگوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں۔
معاوضوں میں مہنگائی کے تناسب سے اضافہ کیا جائے۔بہرحال اطمینان کی بات یہ ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر دی ہیں اب وہ ڈالر ہمیں ضرور ملیں گے جن کا ہمیں طویل عرصے سے انتظار تھا اور اس کے لئے ہم نے بڑے پاپڑ بیلے تھے۔سچ تو یہ ہے کہ سامان تعیش کی درآمد سے اگر قومی خزانے کو فائدہ ہے تو ہونا چاہئے اور کسی طرح ان لوگوں سے پیسے سرکار ی خزانے میں تو آجاتے ہیں جو ٹیکس دینے سے تو کتراتے ہیں تاہم اپنی پسند کی چیزیں خریدنے کیلئے پیسے کو پانی کی طرح بہانے پر خوش ہوتے ہیں۔ ان کی اس خواہش کو اگر کیش کیا جا سکتا ہے تو اس میں کیا برائی ہے۔تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی خیال رہے کہ جو پیسہ ان کے جیبوں سے سرکاری خزانے میں آئے وہ پھر انہی لوگوں پر صرف نہ ہو بلکہ ا س سے ایسے منصوبے اور پراجیکٹس پروان چڑھیں جوعام آدمی کو فائدہ دیں اور اس کے نتیجے میں عام آدمی کی زندگی بدل جائے۔
معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کیلئے اگر حکومت ایسے اقدامات کرتی ہے جس سے یہ مقصد حاصل ہو تو یہ خوش آئند ہے تاہم معیشت کے تمام اشارے اگر مثبت بھی ہوں، معاشی ترقی روز افزوں ہو اور کارخانے و فیکٹریاں ہر طرح کے سامان کی تیاری میں مصروف ہوں مگر عام آدمی کو اس کے اثرات نہ پہنچیں تو بات ادھوری رہ جاتی ہے۔ اصل ترقی تو وہ ہے جس کے نتیجے میں عام آدمی کو بنیادی ضروریات آسانی سے دستیاب ہوں۔ اسے تعلیم صحت، مکان روزگار جیسی بنیادی سہولیات معیار کے ساتھ ملیں۔