ذرائع ابلاغ کے ذریعے وسیع پیمانے پر پھیلی سیلاب کی تباہ کاریوں سے متعلق خبریں اور جانی و مالی نقصانات کے بارے اطلاعات دل ہلا دینے والی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت نے متاثرہ خاندانوں کے لئے 37 ارب روپے سے زائد کا ’سیلاب ریلیف کیش پروگرام‘ شروع کیا ہے۔ اِس پروگرام سے پندرہ لاکھ متاثرہ خاندانوں میں سے ہر ایک کو دو قسطوں میں پچاس ہزار روپے نقد امداد فراہم کی جائے گی۔ فنڈز بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی و دیگر متعلقہ محکموں کے ذریعے متاثرین کو فراہم (منتقل) کی جائے گی۔ گزشتہ چند ہفتوں سے طوفانی بارشوں اور سیلاب نے ملک کے سبھی حصوں میں تباہی مچا رکھی ہے اور سیلاب سے کہیں زیادہ تو کہیں کم لیکن نقصانات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ تازہ ترین اطلاع ہے کہ سیلاب نے بلوچستان میں مزید چھ افراد کی جان لے لی ہے اور اُنیس و بیس اگست کو گیس کی ایک بڑی پائپ لائن بھی سیلاب میں بہہ گئی ہے‘ جس سے بلوچستان کے وسیع علاقوں کو گیس کی سپلائی متاثر ہوئی ہے۔ ایک ایسا صوبہ جو پہلے ہی سیلابی ریلوں کی وجہ سے ملک کے باقی حصوں سے منقطع ہے اور سڑک کے راستے بھی ڈوب چکے ہیں وہاں مزید تباہی سے صورتحال خراب ہوئی ہے۔
سیلاب سے چترال‘ گلگت بلتستان بھی متاثر ہے جہاں دریاؤں اور ندی نالوں میں طغیانی ہے اور معمولات زندگی و بنیادی سہولیات کا ڈھانچہ متاثر ہوا ہے۔ صرف چترال میں شدید بارشوں کے بعد آنے والے سیلابی ریلے میں کم از کم پانچ افراد جان کی بازی ہار گئے ہیں اور دو افراد لاپتہ ہیں۔ چترال میں سیلابی ریلے میں ایک خاتون سمیت سات افراد بہہ گئے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کا اگر بروقت ادراک و احساس کیا جاتا تو یقینا جانی و مالی کے المناک نقصانات سے بچا جا سکتا تھا۔ ملک بھر میں بارش اور اس کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے ہلاک و زخمی یا بے گھر ہونے والے لوگوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں میں مرنے والوں کی کل تعداد سینکڑوں میں ہے۔ بلوچستان سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق حالیہ سیلاب اور بارشوں میں دو سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ سلیمان رینج سے ڈیرہ غازی خان‘ راجن پور اور تونسہ شریف تک آنے والے سیلاب نے ایک ماہ میں تیس افراد کی جان لی ہے اور سینکڑوں گھر بہہ گئے ہیں۔
کراچی میں ایدھی فاؤنڈیشن کے امدادی کارکنوں نے بدھ کے روز ملیر ندی میں ڈوبنے والے ایک خاندان کے چار افراد کی لاشیں نکالیں۔ سندھ کے دیگر حصوں میں‘ مٹی سے بھرے سینکڑوں مکانات قیدیوں کو لپیٹ میں لے گئے کیونکہ طوفانی بارشوں نے عام لوگوں کو مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ چھتیں گرنے سے درجنوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔ لاڑکانہ سے حیدر آباد تک صورتحال نازک ہے۔ سندھ‘ بلوچستان‘ جنوبی پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اب بھی سینکڑوں دیہات ایسے ہیں جو زیر آب ہیں اور ملک کے دیگر حصوں سے اُن کا رابطہ کٹا ہوا ہے۔ سیلاب اور بارش کے پانی نے مواصلاتی نظام کو درہم برہم کر دیا ہے اور مکانات گرنے لگے ہیں۔ اگر دیہی علاقوں میں مکانات پختہ تعمیر کروانے کے لئے حکومت بروقت امداد دیتی تو بارشوں اور سیلاب سے نقصانات بہت کم ہوتے۔ فیصلہ سازوں کو سوچنا ہوگا کہ سیلاب کے بعد اربوں روپے امداد میں دینے سے بہتر ہے کہ سیلاب سے پہلے کروڑوں روپے دے کر سیلاب کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے اور جانی نقصانات ہونے کے امکانات بھی ختم کئے جائیں۔
اگر سیلاب سے ہونے والے نقصانات کم کرنے کے لئے طویل مدتی اقدامات نہیں کئے جاتے ہیں تو خصوصی امداد کے طور دیا جانیو الا معاوضہ ناکافی اقدام ہے۔ اس طرح کے نقصانات کی ایک بڑی وجہ بے پناہ غربت ہے جو مقامی شہریوں کو پختہ مکانات بنانے کی راہ میں حائل ہے۔ امدادی کاموں کو تیز کرنے اور امدادی کیمپ قائم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بیماری‘ بھوک اور انسانی بقا کے بنیادی چیلنجوں سے نبرد آزما متاثرہ لوگوں کی تکالیف کو دور کیا جا سکے۔ مستقبل میں ایسے سانحات سے بچنے کے تین طریقے ہیں۔ ایک‘ حکومت کو مقامی لوگوں کو پختہ (آر سی سی) گھروں کے ڈھانچے تعمیر کرنے کے لئے آسان شرائط اور بلاسود قرض فراہم کرے تاکہ سیلاب کی صورت میں وہ کم از کم اپنی گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر محفوظ رہ سکیں۔ دوسرا سیلابی پانی کے بہاؤ کو دیہات کی طرف موڑ کر اپنی کھیتی باڑی بچانے کے لئے بااثر زمینداروں کے خلاف کاروائی کی جائے جو ندی نالوں کا رخ غیر قانونی طور پر موڑتے ہیں۔
تیسرا‘ طوفانی سیلاب کے لئے ابتدائی انتباہات نشر کرنے کا نظام زیادہ وسیع کیا جائے تاکہ سیلاب کے راستے میں بستیوں کے رہائشی محفوظ مقامات پر منتقل ہو سکیں۔ آخر میں مقامی انتظامیہ کو اِس بارے میں بھی حکمت عملی وضع کرنی چاہئے کہ جن علاقوں سے سیلابی ریلہ گزرنے کے بعد پانی کھڑا ہے اُسے نکالنے کے لئے اقدامات کئے جائیں کیونکہ اِس طرح پانی کھڑا رہنے سے وبائی امراض پھیلتے ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ موجودہ علاقوں میں ہر سال کم یا زیادہ سیلاب آتا ہے تو ایسے علاقوں میں بجلی کا زیادہ مضبوط ٹرانسمیشن سسٹم نصب کرنے کی ضرورت ہے جو مضبوط پائلن کھمبوں پر مشتمل ہونا چاہئے۔ سیلاب متاثرین میں شامل بے گھر لوگوں کے لئے خوراک و رہائش کی فراہمی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ حکومت کی جانب سے نقد امدادی پروگرام اگر وسیع کیا جائے تو کم از کم ایسے متاثرین کے مصائب و مشکلات میں کچھ کمی لائی جا سکتی ہے۔