خودکشیاں: گرانقدر تحقیق

 

جامعہ پشاور کے اساتذہ نور ثنا الدین‘ ڈاکٹر عمران ساجد اور جہانزیب کالج سوات کے ظفر احمد کی مشترکہ تحقیقی کوشش میں ”چترال کے نوجوانوں میں خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کا سماجی تجزیہ اور جائزہ“ لیا گیا ہے اور اِس گرانقدر مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ سال 2013ء سے چترال کے علاقے میں 176 افراد نے اپنی زندگیوں کا خود خاتمہ کیا اور ان میں اٹھاون فیصد (102) خواتین تھیں۔ تحقیق سے نتیجہ اخذ ہوا کہ چترال میں خودکشیاں کرنے والوں کی عمریں پندرہ سے تیس سال کے درمیان ہوتی ہیں اور یہی وہ نکتہ ہے جو اِس بارے غور کرنے پر اُکسا رہا ہے کہ آخر پندرہ سے تیس سال عمر کے جوان مرد و خواتین زندگی کے مسائل کا حل خودکشی کی صورت ہی کیوں دیکھتے ہیں!؟ توجہ طلب ہے کہ مردوں کی نسبت خواتین میں خودکشی کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے اور پندرہ سے تیس سال کی عمر میں یہ اپنی زندگی ختم کرنے کی سوچ پائی جاتی ہے۔ مزید تفصیلات میں زندگی کا ازخود خاتمہ کرنے والے سولہ افراد کا تعلق تیس سے پنتالیس سال کے درمیان تھا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ چالیس اور اس سے زیادہ عمر کے مردوں اور عورتوں دونوں میں خودکشی کے رجحان میں غیرمعمولی کمی آئی ہے۔ چترال میں خودکشی کے واقعات رونما ہونے کا تسلسل ایک عرصے سے نظرانداز رہے جنہیں فرانسیسی ماہر عمرانیات ایمائل ڈرخائم کی ”تھیوری آف سوسائیڈ“ کی روشنی میں تجزیہ کیا گیا اور اِس حوالے سے کی گئی تحقیق میں دیگر دلائل کے ساتھ اِس دلیل کا ذکر بھی ملتا ہے کہ چترال کی روایتی ثقافت پر مادی و مصنوعی ترقی کا گہرا اثر مرتب ہوا ہے اور بہت ہی کم وقت میں وہاں زبردست سماجی تبدیلیاں آئی ہیں۔ جب بھی کہیں سماجی تبدیلی آتی ہے تو اِس کا مطلب نوجوانوں کے ذہن میں سوالات اور خواہشات کا پیدا ہونا ہوتا ہے۔ اُنہیں جدید دور کی ہر وہ چیز چاہئے ہوتی ہے جسے چمکتا دمکتا دکھایا جاتا ہے اور وہ یہ بات فراموش کر دیتے ہیں کہ ہر چمکتی ہوئی چیز سونا نہیں ہوتی۔ علاؤہ ازیں نوجوانوں کو سماجی تبدیلی ہی کی وجہ سے اپنے بنیادی حقوق سے آگاہی ہوتی ہے اور جب ہم عصر حاضر کی بات کرتے ہیں تو اِس میں مقابلے کی فضا اور خواہشات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ صدیوں پرانی مقامی روایات پر حاوی دکھائی دیتا ہے۔ آج ثقافت اور روایات کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ آج تہوار تو ہوتے ہیں لیکن اِن تہواروں کا مقصد اور جواز تبدیل ہوگئے ہیں! سماج کا سماجی اکائی سے رابطہ کمزور دکھائی دیتا ہے جس کی وجہ سے دکھ سکھ مشترک نہیں رہے۔ ایک دوسرے کا احساس اور ایک دوسرے کی اہمیت و جذبات کا احترام بھی باقی نہیں رہا۔ ہمارے معاشرے میں بالخصوص اگر یہ کہا جائے کہ ثقافت ایک ایسی حالت کو پہنچ چکی ہے کہ جہاں روایتی اصول ختم ہو رہے ہیں لیکن ان کی جگہ نئے اصول نہیں لے رہے جسے علوم کی دنیا میں اینومی (کا عمل) کہا جا سکتا ہے۔ ذہن روایت اور جدیدیت کے درمیان منقسم ہو جاتا ہے جس سے متوازن زندگی گزارنے کے حوالے سے ایک مایوس کن (غیر یقینی کی) صورتحال پیدا ہوتی ہے اور اِس سے خودکشی رونما ہونے کے امکانات و خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ چترال کے بارے میں تحقیق کا اطلاق خیبرپختونخوا کے دیگر ایسے علاقوں پر بھی یکساں کیا جا سکتا ہے جہاں خاندانی تنازعات سے جڑے مسائل‘  کام کا بوجھ اور حد سے زیادہ توقعات جیسے امور (عوامل) شامل ہیں۔ 
 تحقیق طلبہ میں پائے جانے والے ایک ایسے مقابلے کی بھی نشاندہی کرتا ہے جس کا تعلق بچے بچیوں کی تعلیمی ناکامی سے ہے اور وہ خاطرخواہ بہتر امتحانی نتائج نہ ہونے کا انتہائی منفی اثر لیتے ہیں‘ خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات کی ایک وجہ ”تعلیمی دباؤ“ یا امتحانات میں امتیازی حیثیت سے کامیابی حاصل کرنے کا جنون بھی ہے۔ مطالعہ میں بتایا گیا کہ تعلیم کو سماجی کامیابی اور ممتاز ہونے کی سیڑھی سمجھا جاتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ خواندگی کی بجائے تعلیم نے ایک ایسے کلچر کو جنم دیا ہے جس سے معاشرے میں تعمیر کی بجائے تخریب پھیل رہی ہے! فیصلہ سازوں کو سوچنا ہوگا کہ درس و تدریس کا مقصد اُجاگر کرتے ہوئے نوجوانوں کے لئے آگے بڑھنے کے امکانات اور راستے متعین کریں۔ تعلیمی اِداروں میں طلبہ کی کونسلنگ سے بھی خودکشی جیسے انتہائی منفی و یک طرفہ اقدام کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ چترال خیبرپختونخوا کا ایسا واحد ضلع نہیں جہاں ”تیز رفتار سماجی تبدیلی“ رونما ہو رہی ہے لیکن چترال میں تعلیم و ترقی کے مواقع دیگر اضلاع کی نسبت کم ہیں جبکہ تعلیم کا معیار بھی مثالی نہیں ہے۔ خودکشیوں سے متعلق مطالعے میں اگرچہ نصاب تعلیم کا جائزہ نہیں لیا گیا اور نہ ہی نصاب ِتعلیم (درسی کتب) سے متعلق سفارشات دی گئی ہیں لیکن وقت ہے کہ خیبرپختونخوا کے ہر ضلع کے معروضی حالات اور وہاں کے نوجوانوں کے رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے نصاب تعلیم کو مرتب اور اساتذہ کی تربیت کا انتظام کیا جائے۔ نوجوان طبقہ خواہشات کے سیلاب میں بہہ رہا ہے اور نفسیاتی الجھنوں کا شکار اِس حد تک پریشانی سے دوچار ہے کہ یہ زندگی جیسی قیمتی شے کا خاتمہ کرنے کی صورت حالات پر احتجاج کر رہے ہیں کیونکہ اُن کی سمجھ بوجھ بس اتنی ہی ہے کہ زندگی میں کوئی دوسرا راستہ نہیں رہا۔چترال کی روایتی ثقافت بڑی حد تک تنہائی میں پروان چڑھی اور بیرونی مداخلت سے صدیوں تک محفوظ رہی۔ جغرافیائی تنہائی کی وجہ سے بھی یہ ملک کے دیگر حصوں سے الگ رہا اور اِسی وجہ سے اپنی ایک خاص و خالص شناخت رکھتا ہے تاہم مقامی لوگوں کو حاصل سماجی و ثقافتی شناخت اور تحفظ جو صدیوں تک مربوط (و برقرار) رہا لیکن سلامتی کے یہ گوہر اور فیض و اخوت کے یہ جوہر‘ وقت کے ساتھ ختم ہو رہے ہیں! موبائل فون‘ انٹرنیٹ‘ سوشل میڈیا سمیت ٹیلی کمیونیکیشن انقلاب نے سب سے زیادہ سماجیات کو متاثر کیا ہے‘ جس نوجوان نسل کا تحفظ اور اُن کا نفسیاتی استحصال روکنا وقت کی ضرورت (تقاضا) ہے۔ جامعہ پشاور کے طلباء نے جو تحقیق کی ہے اسکی روشنی میں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں ذہنی دباؤ اور انتشار میں اضافہ یقینا ایسے عوامل میں اضافہ کرتا ہے جن کے باعث نوجوان نسل میں مایوسی پھیلنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جس کا تدارک بروقت کرنا ضروری ہے۔