ملکی تاریخ میں پہلی خیبر پختونخوا خواتین کانفرنس میں حقوق نسواں کے تحفظ کیلئے جامع سفارشات تیار کرلی گئیں‘کانفرنس کا اہتمام خیبر پختونخوا کمیشن برائے حقوق نسواں نے صوبائی حکومت، عورت فاؤنڈیشن، جی آئی زیڈ، کینیڈا اور جمہوریہ جرمنی کی حکومت کے اشتراک سے کیا تھا‘ پاکستان میں تعینات جرمنی کے سفیر اور کینیڈا کی ہائی کمشنر نے بھی کانفرنس سے خطاب میں حقوق نسواں کے تحفظ اور صوبے میں خواتین کا معیار زندگی بہتر بنانے کیلئے خیبر پختونخوا حکومت کو تعاون کی یقین دہانی کرادی۔کانفرنس کے مہمان خصوصی وزیراعلی خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات و تعلقات عامہ بیرسٹر محمد علی سیف نے اپنے خطاب میں بتایا کہ صوبائی حکومت نے خواتین کی فلاح و بہبود، انہیں بنیادی سہولیات کی فراہمی اور حقوق کے تحفظ کیلئے بجٹ میں 30ارب روپے مختص کئے ہیں‘ ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت خواتین کی بہبود سے متعلق کانفرنس کی سفارشات پر سنجیدگی سے غور کرے گی اور جہاں ضرورت ہوگی اس سلسلے میں قانون سازی کی جائے گی۔
دوروزہ کانفرنس میں جائیداد میں خواتین کو ان کا حق دلانے، مظلوم خواتین کو قانونی سہولت مہیا کرنے، تعلیم اور روزگار کے حصول میں عورتوں کو حقوق دلانے کیلئے موجودہ قوانین پر نظرثانی اور نئی قانون سازی کی تجاویز پیش کی گئیں‘ کانفرنس سے خطاب میں مقررین کا کہنا تھا کہ ملک کے دوسرے حصوں اور بیرون ملک خیبر پختونخوا کی جو عکاسی کی جاتی ہے وہ زمینی حقائق کے بالکل منافی ہے‘صوبے کی خواتین کو زندگی کے ہرشعبے میں آگے بڑھنے کے یکساں مواقع میسر ہیں۔نوبل انعام پانے والی ملالہ یوسف زئی، ملک کی پہلی خاتون لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے۔یہاں کی خواتین نے کھیلوں، صنعت و تجارت، بینکاری، انتظامی امور سمیت تمام شعبوں میں پانی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ مقابلے کے اس دور میں خواتین کو قومی تعمیر و ترقی میں شامل کئے بغیر کوئی قوم ترقی کی منزل سے ہمکنار نہیں ہوسکتی‘ کانفرنس میں خواتین کی تیار کی ہوئی مصنوعات کے سٹال بھی لگائے گئے تھے کانفرنس کے غیر ملکی شرکا نے ان میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا‘کانفرنس کی سفارشات وفاقی و صوبائی حکومت، اقوام متحدہ کے متعلقہ اداروں اور دنیا کے مختلف ممالک میں قائم خواتین کی انجمنوں کو بھی پیش کی جائیں گی‘سچ تو یہ ہے کہ خواتین کی بھر پور شرکت کے بغیر کسی بھی معاشرے میں ترقی اور خوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتااور یہ امر خوش آئند ہے کہ اس وقت زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین سرگرم ہیں اور انہیں ماضی کے مقابلے میں آگے بڑھنے اور ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے مواقع کہیں زیادہ میسر ہیں‘ تاہم ان کو درپیش مشکلات کو بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے موثر اقدامات کے ذریعے ان کیلئے کہیں زیادہ سازگار ماحول کی تشکیل کیلئے سب کو کردار ادا کرنا ہوگا۔کام کی جگہوں پر اور گھر سے کام کی جگہ تک آنے جانے کے دوران حال مشکلات وہ عوامل ہیں جن کی موجودگی میں خواتین خاطر خواہ طور پر ترقی و خوشحالی کی سفر میں شریک نہیں ہوسکتیں، ان مشکلات کا خاتمہ جلد از جلدکرنا ضروری ہے۔