سیلاب: ہنگامی صورتحال

وزیراعلیٰ سندھ سیّد مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ”حالیہ بارشوں سے پورا سندھ دریا کا منظر پیش کر رہا ہے۔ 300 ہلاکتیں اور ایک ہزار سے زائد افراد زخمی ہیں۔ پندرہ لاکھ گھر تباہ ہو چکے ہیں۔ ایک کروڑ سے زائد لوگ بے گھر ہیں۔ مجموعی طور پر سندھ کے 23 اضلاع بارش سے متاثر ہوئے ہیں۔ 90فیصد سے زائد کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ امدادی کاروائیوں میں مشکلات درپیش ہیں۔ سندھ کے سیلاب متاثرین کے لئے فوری طور پر 10 لاکھ خیموں کی ضرورت ہے۔ سندھ نے اس سے پہلے کبھی بھی اتنی بڑی تباہی نہیں دیکھی۔ رواں مون سون سیزن میں ’350 فیصد سے زائد‘ بارشیں ہو چکی ہیں۔“ چوبیس اگست کے روز ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے وزیراعلیٰ سندھ کی بات چیت سرکاری و نجی ٹیلی ویژن چینلوں نے براہ راست نشر کی جبکہ وزیراعلیٰ نے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں جو اعدادوشمار پیش کئے اُس سے غیرسرکاری اعدادوشمار کی تصدیق ہو گئی ہے جن کے مطابق سندھ کے کل 29 میں سے صرف 23 اضلاع متاثر نہیں بلکہ حالیہ بارشوں سے تمام 29 اضلاع کسی نہ کسی طور متاثر ہیں البتہ حکومت کی جانب سے جن 29 اضلاع کے متاثر ہونے کی بات کی جاتی ہے وہاں بارش کا سلسلہ جاری ہے یا سیلابی ریلا گزر رہا ہے اور ایسی صورت میں امدادی سرگرمیاں جاری نہیں رکھی جا سکتیں۔ سندھ کی طرح بلوچستان کے کل 26 اضلاع بھی کسی نہ کسی صورت بارش سے متاثر ہیں جہاں حکومتی اعدادوشمار کے مطابق 230 ہلاکتیں اور 730 مکانات بہہ گئے ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے متعلق وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان پاکستان بھر میں بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ آبادیوں کی بحالی کے لئے فوری انسانی امداد اور امدادی کوششوں کا مطالبہ کر چکی ہیں۔ تیئس اگست کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ ملک میں طوفانی بارشوں کے نتیجے میں مجموعی طور پر 830 افراد ہلاک جبکہ 1348 زخمی ہوئے ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں افراد بے گھر ہیں۔ وفاقی حکومت پہلے ہی متاثرہ علاقوں میں بار بار آنے والے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا ازسر نو جائزہ لینے کے احکامات جاری کر چکی ہے جبکہ ملک میں ”سیلابی ایمرجنسی“ نافذ ہے۔ وفاقی حکومت کے مطابق سندھ کے 30 اضلاع زیر آب ہیں اور موجودہ مون سون سیزن کے دوران سندھ اور بلوچستان میں اوسط سے 395فیصد اور 379 فیصد زیادہ بارشیں ہو چکی ہیں۔ سال 2010ء کے سیلاب کے بعد سے پاکستان ’بدترین دور‘ سے گزر رہا ہے اور موسمیاتی تبدیلیاں خوفناک حدوں کو چھو رہی ہیں۔ درحقیقت صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پورا خطہ موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ حالیہ بارشوں سے لاکھوں افراد کا بے گھر ہونا بھی معمولی نقصان نہیں۔ ایک ایسی صورتحال جس جبکہ متاثرین پہلے ہی بنیادی سہولیات سے محروم تھے اور اُنہیں سیلاب نے مزید مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے جبکہ بنیادی سہولیات کا جیسا تیسا بندوبست بھی تہس نہس ہو چکا ہے بالخصوص رابطہ شاہراہیں ٹوٹ پھوٹ تو کہیں اِن کا نام و نشان تک مٹ گیا ہے گویا کہ ایک ایسے ملک میں کہ جہاں لوگ پہلے ہی ناکافی سہولیات سے دوچار تھے وہاں موجود ’برائے نام تعمیروترقی‘ بھی اگر سیلاب بہا لے گیا ہے تو یہ برس ہا برس کی ترقی کا غرقاب ہونا کتنا بڑا نقصان ہے اِس کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں ہے۔ فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ ہر سیلاب خطرہ نہیں بلکہ خطرے کی دستک ہوتا ہے اور اگر بروقت منصوبہ بندی کر لی جائے تو اِیسی مشکلات کا حل ممکن ہے۔
 موسمیاتی تبدیلیاں انسانوں کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہیں اور جہاں سیلاب سے تباہ کاریاں ہو رہی ہیں وہاں ناقص منصوبہ بندی اور ماحول کو خاطرخواہ اہمیت نہ دینے جیسے اسباب نمایاں ہیں۔ پاکستان گزشتہ کئی برس سے شدید اور درمیانے درجے کی بارشوں اور گرج چمک کی زد میں ہے جس کے نتیجے میں وسیع علاقے سیلاب سے متاثر ہوتے ہیں لیکن سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کا خاطرخواہ انتظام نہیں کیا جاتا۔ بڑے آبی ذخائر کی عدم موجودگی کی وجہ سے وہ ’قیمتی پانی‘ جو سال کے باقی ایام میں آبپاشی و بجلی کی پیداوار کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ حالیہ بارشیں تباہ کن موسمی اثرات کی ایک جھلک ہے اور موسمیات کے ماہرین آئندہ برسوں میں اِس بھی زیادہ شدید متوقع بارشوں کے بارے میں خبردار کر رہے ہیں۔ اِن بے ترتیب موسمی حالات سے نمٹنے کے لئے قومی سطح پر نہ تو کسی بھی قسم کی تیاری دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی عوام سے ’سیلابی ہنگامی صورتحال‘ میں متاثرین کی امداد کے لئے اپیل کی گئی ہے۔ سیلاب سے نمٹنے کے لئے حکومتی اداروں کی تیاری نہ ہونے کی برابر تھی جس کی وجہ سے زیادہ نقصانات ہوئے اور ماسوائے ہنگامی حالات کے بارے میں خبردار کرنے کے وفاقی اور صوبائی ادارے زیادہ کچھ نہیں کرتے۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے مؤثر پیغام رسانی صرف شہروں کی حد تک محدود ہے جبکہ سیلاب سے جو علاقے متاثر ہوئے ہیں اُن میں بجلی و ٹیلی کیمونیکشن وسائل دستیاب نہیں ہیں۔ یہی وجہ رہی کہ حالات کے رحم و کرم پر لوگوں کو چھوڑ دیا گیا جن کی نسل در نسل جمع پونجی‘ گھر بار اور مال مویشی‘ سب کچھ بہہ گیا۔ موسمیاتی تبدیلیاں نئی بات نہیں اور اِن سے نمٹنے کے لئے ’وارننگ‘ جاری کرنا بھی کافی نہیں۔ اِس کثیرالجہتی مسئلے سے نمٹنے کے لئے تمام ریاستی مشینری تعینات کرنے کی ضرورت ہے۔ جنوبی پنجاب کے کچھ علاقوں سے اطلاعات ہیں‘ جہاں بڑے اور بااثر زمینداروں نے نے رکاوٹیں کھڑی کر کے یا نالے بنا کر سیلاب سے اپنی زمینوں کو تو بچا لیا ہے لیکن پانی کا رخ رہائشی اور زرعی زمینوں کی طرح موڑ دیا جاتا ہے اور چھوٹے زمیندار اپنے حقوق کے لئے کچھ نہیں کر پاتے یقینا متعلقہ حکومتی اداروں کے سامنے زیرغور ہوگا کہ وہ ایسی تعمیرات پر مکمل پابندی لگائیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ تمام خشک ندیوں اور ندی نالوں میں ایسے مضبوط پل ہوں جو بہتے ہوئے پانی کو برداشت کر سکیں۔ سیلاب کا مطلب صرف چند دن یا چند ہفتوں کی تباہی نہیں ہوتی۔ یہ خاص طور پر چھوٹے کسانوں کے لئے ڈراؤنے خواب جیسا ہوتے ہیں!۔