آفت زدگان کی دادرسی

خیبر پختونخوا حکومت نے حالیہ بارشوں اور سیلاب سے وسیع پیمانے پر تباہی کے بعد چترال اور ڈیرہ اسماعیل خان کو آفت زدہ ضلع قرار دے دیا ہے۔وزیر اعلیٰ نے تینوں اضلاع کی انتظامیہ کو ہدایات جاری کی ہیں کہ متاثرین کی امداد اور ریسکیو کا کام ہنگامی بنیادوں پر شروع کیا جائے۔ حکومت ایسے علاقوں کو آفت زدہ قرار دیتی ہے جہاں طوفانی بارشوں، سمندری طوفان، سیلاب، زلزلے اور دیگر قدرتی آفات کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوتی ہے۔ بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے رسل و رسائل اور مواصلات کا نظام درہم برہم ہوتا ہے۔حالیہ طوفانی بارشوں سے چترال میں ہر طرف تباہی و بربادی کے مناظر دکھائی دیتے ہیں۔ششی کوہ، عشریت‘ رمبور‘ بمبوریت‘ ریشن‘ بونی‘ آوی‘ تریچ‘ کھوش بریپ اور لاسپور سمیت دونوں اضلاع کے80 دیہات سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور دریا کے کٹاؤ کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئے 
ہیں۔چھوٹے بجلی گھر، رابطہ پل، سڑکیں، آبپاشی کی نہریں، پائپ لائنیں تباہ ہو چکی ہیں۔ آمدورفت کا نظام مفلوج ہونے کی وجہ سے تعلیمی ادارے بھی بند ہیں مریضوں کو ہسپتال پہنچانے میں شدید مشکلات پیش آرہی ہیں لوگ مریضوں کو چارپائیوں پر ڈال کر میلوں پیدل سفر کرنے پر مجبور ہیں، کھانے پینے کی اشیا، ادویات اور پٹرول و ڈیزل نایاب ہو چکے ہیں۔ سیلاب اور مکانات تباہ ہونے کے باعث اٹھارہ قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور درجنوں افرد زخمی ہوئے ہیں ہزاروں کی تعداد میں گائے، بیل، بھیڑ‘ بکریوں 
کی ہلاکت ہوئی ہے۔ ہزاروں ایکڑ رقبے پر تیار فصلیں، زرعی زمینیں، پھلدار درختوں کے باغات اور جنگلات تباہ ہو چکے سینکڑوں رہائشی مکانات، سکول، ڈسپنسریاں، کمیونٹی سینٹرز، دکانیں، دفاتراوردیگر عمارتیں سیلاب برد ہو چکی ہیں۔صوبائی حکومت کی طرف سے بڑے پیمانے پر تباہی کے باعث ان اضلاع کو آفت زدہ قرار دینے کا فیصلہ بروقت اور خوش آئند ہے۔جس علاقے کو آفت زدہ قرار دیا جائے وہاں ہر قسم کے ٹیکسز اور قرضے معاف کئے جاتے ہیں۔ لوگوں کو مفت راشن اور علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جاتی ہے جانی اور مالی نقصانات کا ہنگامی بنیادوں پر معاوضہ دیا جاتا ہے بے گھر ہونے والوں کو چھت اور روزمرہ زندگی کی دیگر سہولیات مہیا کی جاتی ہیں اور مخصوص عرصے تک متاثرین کی بحالی کے لئے خاطر خواہ وسائل مختص کئے 
جاتے ہیں۔آفت زدہ قرار دئیے گئے اضلاع میں ابھی تک سرکاری طور پر امداد، ریسکیو اور بحالی کا کام شروع نہیں ہو سکا ہے وزیر اعلی کو ذاتی دلچسپی لے کر آفت زدہ علاقوں میں امداد اور بحالی آپریشن ہنگامی بنیادوں پر شروع کرنے کے ساتھ ان کی نگرانی بھی خود کرناہوگی تاکہ متاثرہ علاقوں کسی ممکنہ انسانی المیے کا تدارک کیا جاسکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ مون سون سیزن کئی حوالوں سے مختلف رہا اور اسے طویل ترین مون سون قرار دیا جا سکتا ہے‘ موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات پاکستان پر واضح طور سے مرتب ہوتے نظر آ رہے ہیں اور جہاں ایک طرف درجہ حرارت میں اضافہ اور خشک سالی کا سامنا رہا ہے وہاں اب بے تحاشا بارشوں نے تباہی مچا دی ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اس حوالے سے ضروری ہے کہ حکومتی اور عوامی سطح پر بدلتے حالات کے حوالے سے منصوبہ بندی کی جائے تاکہ جانی و مالی نقصان کو کم سے کم کیا جا سکے۔