نشہ عملی زندگی سے فرار کا راستہ ہے یہی وجہ ہے کہ نشے کا عادی کوئی بھی شخص باوجود‘ تعلیم تجربے مہارت و صلاحیت کے بھی فعال کردار ادا نہیں کر سکتا۔ پشاور کی ضلعی انتظامیہ نے قریب 1200 منشیات کے عادی افراد کو تین ماہ کا علاج معالجہ مکمل کرنے کے بعد ملازمتیں فراہم کرنے کی حکمت عملی پر کام شروع کر رکھا ہے تاکہ بحالی کے بعد یہ مصروف ہوں اور پھر سے معاشرے کا فعال جز بن سکیں۔ قبل ازیں منشیات کے عادی افراد کا علاج اور بحالی کا تصور محدود تھا اور اِس میں اُنہیں روزگار فراہم کرنا شامل نہیں تھا۔ اعتراض یہ سامنے آیا ہے کہ بیروزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا ملازمت ملنے کے لئے ضروری ہو گیا کہ کوئی نوجوان پہلے منشیات کا استعمال کرے‘ پھر اُسے تین ماہ علاج معالجے اور بحالی کے تجربے سے گزرنا پڑے اور اِس کے بعد اُسے ملازمت ملنا یقینی ہوگا۔ فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ اگر نوجوانوں کو بروقت روزگار فراہم کیا جائے تو وہ خود کو زمین پر بوجھ سمجھتے ہوئے منشیات کی گود میں ذہنی سکون تلاش نہیں کریں گے۔ اِس سلسلے میں درجنوں تحقیقات موجود ہیں جن میں بیروزگاری کی وجہ سے منشیات کی طرف راغب ہونے اور اِس کے استعمال کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ’منشیات بحالی پروگرام‘ کے پہلے دور میں بحال شدہ منشیات کے عادی افراد کو ’ملازمتی تقرر نامے (اپوئٹمنٹ لیٹرز)‘ جاری کئے گئے ہیں اور اِس حکمت عملی کے تحت روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ حکومت منشیات کے عادی افراد کی نگرانی بھی کی جائے گی تاکہ بحال اور ملازمت ملنے کے بعد یہ افراد دوبارہ نشہ آور (ممنوع) اشیاء کی جانب متوجہ نہ ہوں۔ پشاور کی ضلعی انتظامیہ کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق مزید 700 نشے کے عادی افراد موجود ہیں جنہیں دوسرے مرحلے میں بحالی مراکز منتقل کیا جائے گا جبکہ منشیات کے خلاف جاری مہم میں ایک قدم آگے بڑھتے
ہوئے خیبرپختونخوا کے تعلیمی اِداروں میں طلبہ کے ’ڈوپ ٹیسٹ‘ کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے اور ایسے طلبہ جو منشیات کے عادی پائے گئے اُنہیں علاج گاہوں اور بحالی مراکز میں رکھا جائے گا تاہم اِس مہم کا سب سے نمایاں پہلو ’روزگار کی فراہمی‘ ہے جس کے لئے ضلعی انتظامیہ نے نجی اداروں سے بھی تعاون کی درخواست کی ہے اور اِس سلسلے میں پشاور کی تاجر تنظیموں (تنظیم تاجران‘ انجمن تاجران‘ تاجرانصاف گروپ‘ ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹس ایسوسی ایشن‘ پیٹرولیم ایسوسی ایشن اور پشاور
کنٹونمنٹ تاجر ایسوسی ایشن) کے نمائندوں سے بات چیت کی گئی ہے جو ضلعی انتظامیہ کی جانب سے فراہم کردہ افراد کو ملازمتیں دیں گے۔ ضلعی انتظامیہ اور تاجر تنظیموں کے نمائندوں کی ملاقات میں منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے لئے کی جانے والی حکومتی کوششوں پر مکمل اعتماد کا اظہار سامنے آیا ہے اور مبینہ طور پر تاجروں نے روزگار کی فراہمی میں مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ تاجر برادری کو بریفنگ دیتے ہوئے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (ADC) ڈاکٹر احتشام الحق نے کہا کہ پچیس مئی دوہزاربائیس کو شروع کی گئی منشیات سے پاک مہم کے دوران بارہ سو منشیات کے عادی افراد کو سرکاری اور نجی شعبے کے بحالی مراکز میں بحال کیا جا رہا ہے جبکہ نشے کے عادی افراد کو مرحلہ وار بحالی کے بعد اُن کے اہل خانہ کے
حوالے کیا جائے گا۔ بارہ سو سے زائد بحالی شدہ منشیات کے عادی افراد میں سے 475 کا تعلق پشاور اور خیبرپختونخوا کے دیگر حصوں سے ہے جبکہ 725کا تعلق پنجاب‘ سندھ‘ آزاد کشمیر اور افغانستان سے ہے۔ پنجاب‘ سندھ اور آزاد کشمیر کے بحالی شدہ نشے کے عادی افراد کو ان کے متعلقہ اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے ان کے اہل خانہ کے حوالے کیا جائے گا اور روزگار کی فراہمی کی ذمہ داری بھی اُنہی پر عائد کی گئی ہے۔ پشاور ہوٹلز اینڈ ریسٹورنٹس ایسوسی ایشن کی جانب سے بحال شدہ نشے کے عادی 200 افراد اورعمر فارمیسی‘ نے 100 ایسے افراد کو ملازمت دینے کا وعدہ کیا ہے۔ انجمن تاجران کی جانب سے 2 نابالغ بچوں کی دیکھ بھال کا اعلان اور گریجویٹس کو بامعاوضہ انٹرن شپ کی فراہمی کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ پچیس اگست کے بعد پشاور میں منشیات کے عادی افراد کے خلاف ایک اور کاروائی (آپریشن) کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ ضلع کو منشیات کے عادی افراد سے پاک کیا جا سکے۔منشیات کے عادی اَفراد کی بحالی کے لئے ’پائیدار حکمت ِعملی‘ کی ضرورت ہے جس کے تحت پہلا اقدام منشیات کی کھلے عام فروخت اور باآسانی دستیابی کو ناممکن بنانا ہے۔ نشے کے عادی چند سو افراد کی بحالی اور اُن کے لئے روزگار کا انتظام اپنی جگہ اہم لیکن منشیات کے ناسور سے معاشرے کو نجات دلانا بھی یکساں اہم و ضروری ہے۔نشے کے عادی افراد کو معاشرے کا مفید حصہ بنانا اس لئے ضروری ہے کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کی خدمات سے استفادہ کرنا معاشی مشکلات کو کم کرنے میں مدد دے گا اس مقصد کے حصول میں نہ صرف حکومتی اداروں کی کارکردگی اہم ہے بلکہ معاشرے کا حصہ ہونے کے ناطے تمام افراد اگر اپنی ذمہ داری نبھائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرے سے منشیات کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کامیابی نہ ملے۔