ان دنوں عجیب طرح کی مضطرب اور بے چین رکھنے والی کیفیات میں زندگی سانس سانس آگے بڑھ رہی ہے‘ لمحہ لمحہ رنگ بدلتے گرد و پیش سے نہ تو نظریں چرائی جا سکتی ہیں اور نہ ہی اسے دیکھا جاسکتا ہے، اب تو حالت یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر نظر آنے والی کسی مزاحیہ پوسٹ پر اگر اکیلے میں بھی ہونٹوں پر مسکراہٹ یا ہنسی آ جاتی ہے تو فوراً خود کو چیک کرنا پڑتا ہے جیسے کوئی جرم سرزد ہو گیا ہو کیونکہ آنکھوں کے سامنے میڈیا اور سوشل میڈیا پر قدرتی آفات کے سامنے انسان کی بے بسی کی ان گنت ساکت اورمتحرک تصویریں پھرنے لگتی ہیں‘ پر سکون اور شانت دریاؤں میں جب مسلسل برسنے والی بارشوں کے نتیجے میں چڑھے ہوئے برساتی نالے بھی شامل ہو جاتے ہیں تو پھردریا اپنے پاٹ کو پھیلاتے ہوئے بپھری ہوئی لہروں کو بستیوں کی طرف اچھالنا شروع کر دیتے ہیں، مون سون کا یہ رخ ان بستیوں کی سکھ بھری زندگی میں کرب اور اذیت کے نہ بھلائے جا سکنے والے ایسے سفاک لمحے کاشت کر جاتا ہے جو دل و دماغ میں نقش اور آنکھوں کی پتلیوں میں جیسے منجمد ہو کر رہ جاتے ہیں، انسان کی بے بسی کی یہ تصویر ویسے تو ہر حساس دل کو خون کے آنسو رلاتی ہے لیکن جو ان آفات کا براہ راست شکار ہو رہے ہوتے ہیں ان پر گزرنے والی کیفیات کو تو نہ لکھا جاسکتا ہے نہ سو چا جا سکتا ہے، ان کے آنکھوں کے سامنے ان کا بھرا پڑا گھر زیر ِ آب ہو تا ہے اور وہ بمشکل اپنا آپ بچاتے ہوئے اس بھٹکے،بھڑکے اور بپھرے ہوئے پانی کے کنارے بیٹھے خالی خالی نظروں سے آسمان کو دیکھ رہے ہوتے ہیں، جو ان پر بیتنے والی کیفیات سے بے نیاز مسلسل پانی برسا رہا ہوتا ہے۔
بس اپنی دھن میں برستا ہے برسے جاتا ہے
اجڑنے والے دلوں کا خیال کم کم ہے
ان اجڑی پجڑی بستیوں کے مکینوں کی بے بسی اور بے کسی میں اس وقت اور اضافہ ہو جاتا ہے جب ان کا پرسان حال کوئی نہیں ہوتا۔یا ان کی خبر گیری کرنے والوں کی ترجیحات میں کچھ اور ”ضروری کام“ سر فہرست ہو تے ہیں، پشتو زبان کا ایک روز مرہ شاید ان کے اس رویے کی عمدہ ترجمانی کر سکتا ہے جس کا اردو میں کچھ اس طرح کا مفہوم بنتا ہے کہ ”میں یقینا آپ کے صدقے واری جاؤں گا، بس ذرا (پہلے)اپنے کاموں سے فارغ ہو جاؤں“ پشتو زبان کے اس روز مرہ کی عملی صورت چھوٹی سکرین کے بعض چینلز
کے نیوز بلیٹن میں بہ آسانی دیکھی جاسکتی ہے۔ پہلے سیاسی زعماء کے ضروری کاموں کی جھلکیاں دکھائی جاتی ہیں اور پھر پانی کی سفاکیوں کی کہانی دکھائی جاتی ہے جس میں بستیوں کی بستیاں دریا برد دکھائی دیتی ہیں اورگھروں کے ملبے پر بیٹھے بھوکے پیاسے بچوں کو بلکتا دیکھ کر بے بسی کی تصویر بنے ان کے والدین نظر آتے ہیں، جن سے بظاہربے خبر سیاسی زعماء اپنی ترجیحات اور ان کے حصول کیلئے صبح دوپہر شام خشمگیں نگاہوں،گلے کی پھولی ہوئی رگوں اور کشیدہ چہروں کیساتھ بولتے ہوئے ادب آداب کو جب بالائے طاق رکھتے نظر آتے ہیں تو بے ساختہ غلام محمد قاصر کا شعر زباں پر رواں ہو جاتا ہے۔
سب اپنی اپنی خریداریوں کی فکر میں ہیں
نظر کسی کی نہیں ہے مرے خسارے پر
چلئے ان کا کیا مذکور مگر آج کا پورا سچ یہی ہے کہ یہ بپھرا ہوا پانی مرے سارے شہروں اور قصبات میں رنج و الم کی کئی داستانیں لکھتا چلا جا رہا ہے، کل پانی اتر جائے گا مگر اْن بے یارو مددگار بے بس لوگوں کے دکھ کسی صورت کم نہیں ہوں گے جن کی چھتیں جن کے در و دیوار کے نشاں تک باقی نہیں رہے اورجن گھروں کا نہ جانے کتنے برسوں میں تنکا تنکا جوڑ کر جو ضروریات ِ زندگی کا اکٹھا کیا ہوا سامان سیلاب میں بہہ گیا اور جن مال مویشیوں کی مدد سے وہ زندگی کی گاڑی جیسے تیسے کھینچ رہے تھے ان کے مردہ جسم بھی پانی اترنے پر ان کو ہلکان کر دیں گے، زندگی آگے بڑھتی ہے شاید وہ بھی یہ سب زخم کبھی نہ کبھی کسی طور برداشت کرنا سیکھ جائیں مگر جن کے اپنے پیارے کچھ بزرگ، کئی ایک بچے اور ان کو بچانے کی کوشش میں زندگی ہارنے والی ماؤں کی یادوں کے لالہ گوں زخم تو کبھی مندمل نہیں ہو پائیں گے وہ تو آنے والے بے شمار موسموں میں ہرے رہیں گے۔بدقسمتی سے یہ بھیگا ہوا سفاک موسم ابھی تھکا نہیں اور ماہرین ابھی کچھ اور شب و روز تک اس کی ستم کاریوں کے جاری رہنے کی پیشگوئیاں کر رہے ہیں، ابھی کچھ دیر پہلے ہی میرے گاؤں اکوڑہ خٹک سے ذیشان بیٹے نے مجھے فون پر بتایا کہ نوشہرہ کی ضلعی انتظامیہ نے دریائے کابل کے کنارے آباد علاقوں کے مکینوں کو جلد از جلد نقل مکانی کی ہدایات جاری کر دی ہیں کہ کہ سیلاب کا ایک زور دار ریلا کسی بھی وقت شام سے پہلے ان علاقوں کی طرف بڑھے گا۔،مجھے یاد ہے کہ چند ہی برس پہلے جب ایسا ہی ایک سیلاب آیا تھا اور ممکنہ خطرے کے پیش نظر مکین گھروں سے محفوظ مقامات کی طرف چلے گئے تھے تو پانی نے ان کے گھروں کے ساتھ کیا سلوک کیاتھا وہ کہانی سننے اور سنانے کے لئے بہت بڑا جگرا چاہئے، میرے بڑے بھائی سید پیر محمد شاہ جو افرا تفری کے عالم میں بمشکل چند کتابیں ہی بچا پائے تھے پانی اترنے کے بعد ان کے گھر میں ایک تنکا بھی نہیں بچا تھا،ان دنوں میرے کئی ایک قریبی رشتہ داروں کے گھر مکمل ڈوب گئے تھے اور ان کے مکینوں کو میرے استاد ِمحترم مولانا سمیع الحق شہید نوراللہ مرقدہ کی محبت نے میری مادر علمی دارالعلوم حقانیہ میں کئی ہفتوں تک پناہ دے رکھی تھی اور کھانے پینے سمیت ہر طرح کی سہولت بھی فراہم کی تھی، اِ ن دنوں اگر چہ صوبائی حکومت نے خصوصا ًپرویز خٹک کی بھرپور توجہ سے دریائے کابل کے کنارے کئی جگہوں پر مضبوط پشتے تعمیر کر دئیے گئے ہیں اور بپھرے ہوئے پانی کو اب بڑی حد تک مزاحمت بھی مل رہی ہے لیکن متوقع زور دار ریلے سے اگر پانی کی سطح ان پشتوں سے خدا نخواستہ بلند ہو گئی تو پھر اکوڑہ خٹک اور گرد و نواح کے علاقے کی طرف پانی کو راستہ مل جائے، اسی خدشے کے پیش نظر نوشہرہ کی ضلعی انتظامیہ مسلسل اپنے لو گوں کو خبردار کر رہی ہے، سکول بند کر دئیے گئے ہیں،ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے لیکن شنید ہے کہ اس وقت بھی اکوڑہ خٹک کے کچھ زندہ دل نو جوان سامان خورد و نوش ساتھ لئے پانی کے کنارے بے فکربیٹھے ہوئے سیلابی ریلے کی متحرک تصویریں بنارہے ہیں، میں کہہ نہیں سکتا کہ واقعی ایسا ہی ہے یا نہیں، لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ بے خوفی اور خوش فکری کچی عمروں کا خاصا ہوا کرتی ہے پھر بھی میری یہ خواہش ہے کہ کوئی ان منچلوں تک احمد فراز کا یہ شعر ضرور پہنچا دے۔
اس تماشے میں الٹ جاتی ہیں اکثر کشتیاں
ڈوبنے والوں کو زیر ِ آب مت دیکھا کرو