جوہری عدم پھیلاؤ 

اس وقت ایک بار پھر دنیا کو سرد جنگ کا سامنا ہے اور روس امریکہ چپقلش اس وقت ایک بار پھر زوروں پر ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ایسا فورم نہیں جہاں پر ان دو ممالک کے باہمی اختلافات واضح دکھائی نہ دے رہے ہیں اور بہت سے اہم معاملات اس کی وجہ سے کھٹائی میں پڑتے جار ہے ہیں۔ان میں سے ایک جوہری عدم پھیلاؤ بھی ہے۔ جوہری عدم پھیلاؤکے پچاس برس پرانے معاہدے کو اپ ڈیٹ کرنے کے لیے اقوام متحدہ میں ایک ماہ سے جاری مذاکرات ناکام ہو گئے۔ روس نے اس کے مسودے پر اعتراض کیا، تاہم اس کا کہنا ہے کہ ان تحفظات میں وہ تنہا نہیں ہے۔جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ سے متعلق معاہدے پر نظر ثانی کے لیے تازہ ترین کانفرنس اس وقت ناکامی کے ساتھ ختم ہوئی، جب روس نے معاہدے کی حتمی دستاویز کو ویٹو کر دیا۔اس حوالے سے نیویارک میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں گزشتہ تقریبا ایک ماہ سے بات چیت جاری تھی، تاہم روس نے کانفرنس کی حتمی دستاویز کو بہت سیاست زدہ قرار دیا اس لیے اسے اپنائے بغیر ہی مذاکرات ختم ہو گئے۔

اس دستاویز میں روس کا نام لیے بغیر یوکرین میں یورپ کے سب سے بڑے جوہری پلانٹ زاپوریزیا میں پائی جانے والی موجودہ مشکلات کا بھی حوالہ دیا گیا تھا۔روسی وزارت خارجہ میں، جوہری عدم پھیلا اور ہتھیاروں کے کنٹرول سے متعلق محکمے کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایگور وشنیوسکی نے اس بات پر زور دیا کہ صرف روس ہی نہیں بلکہ کئی دیگر ممالک بھی اس دستاویز میں موجود کئی مسائل سے متفق نہیں ہیں۔ارجنٹینا اس کانفرنس کے مشکل مذاکرات کی صدارت کر رہا تھا۔ اس کے سفیر گستا زلوائن کا کہنا تھا، حتمی مسودے کے نتائج میں کسی پیش رفت کے لیے ان کی بہترین کوششیں نمایا ں نظر آتی ہیں۔ گستا نے مزید کہا،اس مسودے میں تاریخ کے ایک ایسے لمحے میں مختلف نظریات کو جگہ دینے کی کی کوشش کی گئی ہے، جب ہماری دنیا بہت تیزی سے تنازعات کی لپیٹ میں ہے اور سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ناقابل تصور جوہری جنگ کی جانب بڑھنے کے امکانات بھی نظر آ رہے ہیں۔

 2015کی جائزہ کانفرنس میں بھی مشرق وسطی کے علاقے کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک کرنے کے سوال پر اختلافات پیدا ہو گئے تھے اور اس وقت بھی کانفرنس کسی حتمی معاہدے کے بغیر ہی ختم ہو گئی تھی۔حالیہ اجلاس سے روسی سفیر کے خطاب کے بعد ارجنٹینا کے مندوب نے کہا،میں دیکھ رہا ہوں کہ اس وقت، کانفرنس اپنے اہم کام پر اتفاق رائے حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔جوہری امور سے متعلق ہر پانچ برس بعد منعقد ہونے والی اس جائزہ کانفرنس میں اتفاق رائے سے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ اس کے لیے ان تمام 191 ممالک کی منظوری درکار ہوتی ہے جو جوہری ہتھیاروں کے پھیلا ؤکو روکنے والے معاہدے کے فریق ہیں۔اس حوالے سے جو حتمی مسودہ تیار کیا گیا تھا، اس میں یوکرین کے اس زاپوریژیا پلانٹ کا بھی ذکر ہے، جس پر روس نے حال ہی میں قبضہ کر لیا تھا۔

 اس کی منظوری کا مطلب یہ تھا کہ معاہدے کے فریقین کو جوہری پلانٹس یا اس کے آس پاس عسکری سرگرمیوں کے لیے شدید تشویش کا اظہار کرنا پڑتا۔ تمام ممالک کو یہ بھی تسلیم کرنا پڑتا کہ علاقے پر یوکرین کا کنٹرول ختم ہو جانے کے بعد سے بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی، وہاں جوہری مواد کے تحفظ کو یقینی بنانے کی  اہل نہیں۔  اس مسودے کی رو سے تمام فریقین کو اس بات کی کوشش کو بھی یقینی بنانے کا عہد کرنا پڑتا کہ زاپوریژیا پلانٹ کا جوہری مواد کوئی دوسرا رخ تو نہیں اختیار کررہا ہے۔ اس میں یوکرین کی جوہری تنصیبات بالخصوص زاپوریژیا کی حفاظت پر شدید تشویش کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔یہ دوسرا موقع ہے جب دنیا کے ممالک اس حوالے سے کسی حتمی مسودے پر پہنچنے میں ناکام رہے ہیں۔اس سے قبل 2015کی جائزہ کانفرنس میں اختلافات پیدا ہونے کے بعد کانفرنس کسی حتمی معاہدے کے بغیر ختم ہوگئی تھی۔