ستائیس اگست: خیبر پختونخوا میں بارشوں کے سبب آئے سیلاب سے متعلق ’صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی‘ نے کہا ہے کہ ”نوشہرہ دریا میں پانی کی سطح2لاکھ74ہزار 274کیوسک ہے جبکہ پانی سطح مسلسل بلند ہو رہی ہے۔“ وہ سبھی دریا اور ندی نالے جو عمومی حالات میں (مجموعی طور پر) ایک سے ڈیڑھ لاکھ کیوسک پانی کے اخراج کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ تین سے چارلاکھ کیوسک پانی کا دباؤ برداشت کر رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سیلابی ریلے رہائشی علاقوں میں داخل ہو گئے ہیں۔ سیلاب آنے کی دوسری وجہ آبی گزرگاہوں میں تجاوزات بتائی گئی ہے جن کی اکثریت کو اگرچہ سیلابی پانی اپنے ساتھ بہا لے گیا ہے لیکن اُن کا ملبہ اب بھی پانی کی راہ میں حائل رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے پانی اپنے دباؤ کی وجہ سے آبی گزرگاہوں کی بجائے کناروں سے تجاوز کر جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دریاؤں کے اطراف میں اِدھر اُدھر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلی ہوئی ہے۔
ملک شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے تباہی کے مناظر لمحہئ فکریہ ہیں‘ کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے جن اثرات کا پوری دنیا کو سامنا اُس کی بدترین شکل پاکستان میں دیکھی جا رہی ہے۔ ملک کے طول و عرض میں تمام صوبے کسی نہ کسی صورت سیلاب سے متاثر ہیں اور بیشتر شہروں‘ قصبوں‘ دیہی علاقے اِس سے متاثر ہیں جبکہ لاکھوں ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں! سندھ سے لے کر بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے لے کر جنوبی پنجاب تک ”تین کروڑ“ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کیونکہ پاکستان کی تقریباً پندرہ فیصد آبادی ایسے حالات کا سامنا کر رہی ہے جس کا تعلق ماحول کو خاطرخواہ اہمیت نہ دینے‘ امدادی کاروائیوں کی صلاحیت میں کمی‘ ہنگامی حالات کی خاطرخواہ تیاری نہ ہونا اور بارشوں کے بارے میں موسمیاتی ماہرین کی پیشگوئیوں کو نظرانداز کرنے جیسے محرکات شامل ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں (شمالی پنجاب) کا قریب سے مشاہدہ کرنے اور دیگر علاقوں سے ملنے والی تصاویر اور ویڈیوز دل دہلا دینے والی ہیں۔
سیلاب میں پھنسے بے سہارا لوگ مدد کی اپیل کر رہے ہیں کیونکہ جس سانحے نے انہیں گھیر رکھا ہے وہ ہر طرف پانی اور جھل تھل ایک ہونا ہی نہیں بلکہ آسمان سے پانی مسلسل برس رہا ہے۔ کئی علاقے ایسے بھی ہیں جہاں موسم کی خرابی کی وجہ سے امدادی کاروائیاں ابھی تک شروع ہی نہیں کی جاسکی ہیں اور یہ علاقے قابل رسائی نہیں ہیں۔ پاکستان نے صورتحال کو ”قومی ایمرجنسی“ قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے امدادی کاروائیوں میں مدد کی درخواست (مطالبہ)کیا ہے چونکہ مون سون بارشوں کا سلسلہ (سیزن) ستمبر تک جاری رہتا ہے‘ اس لئے ممالک اور غیر سرکاری تنظیموں سے بین الاقوامی مدد کی فوری ضرورت ہے۔ محکمہئ موسمیات کے مطابق مون سون کا موجودہ دورانیہ ختم ہونے کے بعد ایک اور دباؤ (بارشوں کا سلسلہ) دس سے بارہ دن بعد شروع ہوگا۔ پاکستان آج عالمی امداد کا مطالبہ کر رہا ہے اور اِس عالمی امداد کا بڑا حصہ غیرملکی امدادی ادارے (این جی اوز) کی وساطت سے دیئے جاتے ہیں۔
یقینا ہمارے قومی فیصلہ سازوں کو اِس وقت احساس ہو رہا ہوگا کہ اُنہوں نے کس قدر غلطی کی جب عالمی امدادی اداروں پر حیلوں بہانوں سے پابندیاں عائد کی گئیں اور اُنہیں رجسٹریشن کے عمل میں ایسے سخت قواعد و ضوابط عمل درآمد کرنے کا حکم دیا گیا جن کی وجہ سے کئی عالمی امدادی اداروں نے پاکستان میں اپنے دفاتر اور آپریشنز ہی بند کر دیئے۔ موجودہ حکومت نے ’عالمی این جی اوز‘ کے لئے رجسٹریشن کی شرائط میں کچھ نرمی کی ہے لیکن جو نقصان ہونا تھا وہ تو ہو ا ہی ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں گزشتہ تیس سال کی اوسط سے 400 فیصد سے زیادہ بارش ہو چکی ہے جبکہ بارش کا سلسلہ پھر بھی جاری ہے اور اِس پوری صورتحال میں تباہی کا پیمانہ ناقابل تصور ہے اور اس کے نتائج سوچ سے زیادہ بدتریں ہیں کیونکہ اِس سے ”انسانی المیہ“ جنم لے سکتا جو خدانخواستہ بڑے پیمانے پر اموات ہوں گی! سیلاب سے اب تک 900 سے زیادہ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے اور یہ اندازوں پر مشتمل سرکاری اعدادوشمار ہیں۔
حقیقت حال یہ ہے کہ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں زیر آب آ چکی ہیں۔ لاکھوں لوگ روزی روٹی سے محروم ہو چکے ہیں جبکہ مال مویشیوں کا نقصان الگ سے ہے یعنی زرعی معیشت و معاشرت رکھنے والی پاکستان کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی کسی نہ کسی طور سیلاب سے متاثر ہیں اور ایسے متاثرین کی تعداد نصف سے زیادہ ہے جن کی ساری عمر کی جمع پونچی سیلاب کا پانی بہا لے گیا ہے۔ اُن کے گھر‘ اُن کی بچت‘ بچیوں کے جہیز‘ رہنے کے ذرائع اور یہاں تک کہ خاندان ایک دوسرے سے بچھڑ گئے ہیں۔ ہنگامی حالات میں مدد کے لئے فوج پہلے ہی طلب کی جا چکی ہے اور امدادی کاروائیاں بڑے پیمانے پر جاری ہیں۔سیلاب موسمی بارشوں کے ساتھ گزر جائے گا لیکن اِس کے سبق اموز پہلوؤں سے اگر سبق نہ سیکھا گیا تو یہ موجودہ آفت سے کہیں گنا زیادہ بڑا نقصان ہوگا۔
حالیہ سیلاب نے یہ ایک مرتبہ پھر ثابت کیا ہے کہ کس طرح دریا کے کنارے کے ارد گرد غیر قانونی تعمیرات مزید جانوں کے ضیاع کا باعث بنتی ہیں اور بچاؤ کی کوششوں میں رکاوٹ بنتی ہیں۔قابل ذکر ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں ورلڈ بینک کی 2021ء کی رپورٹ میں یہ کہتے ہوئے متنبہ کیا گیا تھا کہ ”پاکستان کو دنیا میں سب سے زیادہ آفات کا سامنا کرنا پڑے گا اور پاکستان کے لئے موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرے کی سطح دیگر ممالک کی نسبت زیادہ ہے۔
سال 2020ء کے ”انفارم رسک انڈیکس“ کے مطابق 191 ممالک کی اِس فہرست میں پاکستان کا نمبرشمار اٹھارواں تھا لیکن کئی محرکات کی وجہ سے پیدا ہونے والے خطرات پاکستان کو سرفہرست لے گئے ہیں! پاکستان میں بارشوں اور سیلاب سے تباہی کی ایک وجہ ”سماجی کمزوری“ بھی ہے۔ محکمہئ موسمیات نے تصدیق کر دی ہے کہ موجودہ بارشیں اور بارشوں سے آنے والا سیلاب سال 2010ء کے سیلاب سے زیادہ بدتر ہے۔ تباہی کی یہ کہانیاں ماضی کے برعکس زیادہ کثیرالجہتی ہیں‘ جو لوگ اِس مرتبہ متاثر ہوئے ہیں ان کی امداد اور بحالی کے عمل کے لئے ”مشترکہ قومی کوششوں“ کی ضرورت ہے۔