ہے عجب بے رنگیئ احوال مجھ میں موجزن

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں جنگلات مجموعی قومی رقبے کے ’پانچ فیصد‘ حصے پر ہیں‘ اور اگر یہ حکومتی اعدادوشمار درست تسلیم کر بھی لئے جائیں تب بھی جنگلات کا یہ رقبہ عالمی معیار کے مطابق نہیں جس کے مطابق کسی بھی ملک کے مجموعی رقبے کے کم سے کم 25 فیصد حصے کے مساوی جنگلات ہونے چاہئیں۔ المیہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں‘ تجاوزات‘ غیرقانونی کٹائی اور آبادی میں اضافے کی وجہ سے سالانہ قریب ستائیس ہزار ہیکٹر رقبے پر جنگلات ختم ہو رہے ہیں! ماحول سے متعلق تحقیق اُور ماہرین کا اتفاق اِس بات پر ہے کہ جنگلات کے رقبے میں اضافے کے ساتھ اِس میں کمی کے محرکات پر بھی یکساں توجہ دینی چاہئے۔ یہ بات غور طلب ہے کہ گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا میں پانچ ہزار سے زائد برفانی تودے (گلیشیئرز) ہیں جن میں سے کم از کم 33 برفانی تودے ایسے ہیں جنہیں موسمیاتی درجہئ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ”خطرناک“ قرار دیا گیا ہے۔ جب کسی برفانی تودے کو ’خطرناک‘ قرار دیا جاتا ہے تو اُس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ اچانک پھٹ سکتے ہیں اور اِن کے اندر جمع شدہ پانی اچانک خارج ہو سکتا ہے جسے تکنیکی طور پر ’گلیشیئر لیکس آؤٹ برسٹ فلڈنگ‘ کہا جاتا ہے اور اِس عمل میں لاکھوں کیوبک میٹر برف پانی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔

 ظاہر ہے کہ اِس قدر پانی جب ندی نالوں سے ہوتا ہوا دریاؤں میں گرتا ہے اور دریا سمندر میں پہنچ کر حالت سکون اختیار کرنے سے پہلے پہاڑی و میدانی علاقوں میں ہوئی تمام تر ترقی اور اپنے راستے میں آنے والی زرعی اراضی بشمول جنگلات کو بہا لے جاتے ہیں! اِس طرح تیزرفتار پانی کا ریلہ اپنے ساتھ لئے جابجا نقصان کا باعث بنتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں پر اظہار افسوس کرنے والوں کو خود سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ کیا ہمارا قول و فعل‘ ہمارا رہن سہن اور ہماری سوچ و ترجیحات پر مبنی طرز زندگی ’ماحول دوست‘ ہے؟خیبرپختونخوا کے محکمہئ ٹرانسپورٹ کے مرتب کردہ (سرکاری) اعداد و شمار کے مطابق ”صوبائی دارالحکومت پشاور میں سال 2020ء کے دوران قریب 8 لاکھ 50 ہزار موٹرگاڑیاں رجسٹرڈ ہوئیں۔“ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں گاڑیوں رجسٹرڈ ہونے کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ہر سال پشاور میں پیٹرولیم مصنوعات کا استعمال بڑھ رہا ہے اور پشاور کی فضا میں پیٹرولیم مصنوعات کی وجہ سے پھیلنے والی آلودگی کا 92 فیصد سبب ہر طرح کے پہیوں پر چلنے والی سواریاں ہیں‘ جو ایندھن سے چلتی ہیں۔

 سال 2021ء کے صوبائی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پٹرولیم مصنوعات کی فروخت بیس لاکھ میٹرک ٹن سے تجاوز کر گئی جبکہ پشاور سے متعلق ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پشاور کی فضا میں مضر دھاتوں کے ذرات کی مقدار ’پی ایم 2.5‘ ہونی چاہئے لیکن شہر کے کئی حصوں میں یہ تناسب و توازن بگڑا ہوا ہے اور ’ہوا کا معیار‘ اِس حد تک خراب ہے کہ اِسے انسانی زندگی کے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ ”پشاور جو کبھی ”پھولوں کا شہر“ کہلاتا تھا‘ اِس وقت دنیا کا نواں آلودہ ترین شہر قرار دیا جاتا ہے!“ پندرہ سو اٹھارہ مربع رقبے پر پھیلے اِس شہر کی کل آبادی پچاس لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے اور اگر اِس کے رجسٹرڈ و غیررجسٹرڈ عارضی مکینوں کا بھی شمار کیا جائے تو پشاور کی آبادی ستر لاکھ سے زیادہ ہوتی ہے لیکن اگر اِس قدر بڑی آبادی صاف ہوا میں سانس نہیں لے رہی تو کیا اِس سلسلے کو جاری رہنا چاہئے؟ ضرورت اِس امر کی ہے اور بطور خاص لائق توجہ ہے کہ پشاور کی بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی پر اگر قابو پا لیا گیا یعنی گاڑیوں کا استعمال کم سے کم‘ حسب ضرورت اور بنا ماحولیاتی آلودگی کا سبب بنے کیا گیا تو ”ائر کوالٹی لائف انڈیکس“ نامی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ”پشاور کے شہری زیادہ صحت دوست ماحول میں رہ سکتے ہیں لیکن ایسا صرف اُس صورت ممکن ہوگا جب پشاور کی فضا میں مضر صحت دھاتوں کے ذرات کا تناسب ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے (عالمی) معیار کے مطابق یعنی ”پی ایم 2.5“ کی سطح پر آ جائے۔ 

پاکستان انرجی ائر بک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پشاور میں گھریلو‘ تجارتی‘ صنعتی اور ٹرانسپورٹ کے شعبے تقریباً چودہ ہزار ٹن مائع پیٹرولیم گیس اور بارہ ہزار پانچ سو ملین مکعب فٹ قدرتی گیس استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اندازے کے مطابق تیرہ ہزار پانچ سو ٹن براؤن کوئلہ (لگنائٹ) بھی استعمال ہوتا ہے جبکہ شہر میں سالانہ دو لاکھ ٹن فضلہ (کوڑا کرکٹ) پیدا ہوتا ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ لمحہئ فکریہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں لکڑی کے ایندھن کے استعمال کا دنیا میں سب سے زیادہ تناسب ہے! خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں لکڑی ایندھن کے لئے عام استعمال کی جاتی تھی اور سرشام گھروں سے دھواں اُٹھنا شروع ہوجاتا ہے جب عشایئے کے لئے روٹیاں پکائی جاتی ہیں اور اِس عمل میں گھر گھر لگے تندوروں سے کثیف دھواں اُٹھتا ہے۔ سال 2017ء کی مردم شماری کے مطابق پشاور میں تقریباً 1 لاکھ 38 ہزار خاندان ایسے ہیں جنہوں نے اپنی ایندھن کی ضروریات کے لئے لکڑی کا استعمال کیا۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق ”پاکستان میں مضر ماحول ایندھن کے ذرائع کا تناسب ماحول دوست (محفوظ) ایندھن کے مقابلے 79 فیصد ہے اور اگر اِس شرح کا عالمی سطح پر موازنہ کیا جائے تب بھی یہ انتہائی بلند شرح ہے۔ 

اِسی طرح ”گلوبل فارسٹ واچ“ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2010ء میں پاکستان میں 648 کلو ہیکٹرز درخت تھے جن میں سال سال 2021ء تک 63.2 کلو ہیکٹر رقبے پر پھیلے درخت کھو دیئے گئے اور جب درختوں کی تعداد کم ہوتی ہے تو فضا میں موجود کاربن (CO) گیس کی مقدار جذب کرنے کی صلاحیت بھی خودبخود کم ہو جاتی ہے۔ ماحولیاتی اثرات کی تشخیص‘ فضائی آلودگی کنٹرول ٹیکنالوجی اور کلینر پروڈکشن جیسے علوم پر عبور رکھنے والے ایک معلم (ماہر ماحولیات) کا کہنا ہے کہ ”پاکستان میں جنگلات کا رقبہ جو بھی ہے وہ ناکافی ہے اور اِس سے اضافے کے لئے صرف حکومت کی جانب سے شجرکاری مہمات کافی نہیں ہوں گی بلکہ ہر شہری و دیہی علاقے کے رہنے والے کو چاہئے کہ وہ ہر سال کم سے کم 4 درخت لگائے اور اِن درختوں کے تناور بننے تک حفاظت کی ذمہ داری بطور فرض قبول کرے جبکہ درختوں کی ضرورت کو اگر ایندھن کی کھپت کے ساتھ شامل کیا جائے تو ہر فرد کو سالانہ کم سے کم 30 درختوں کی شجرکاری کرنی چاہئے۔ شجرکاری کرتے ہوئے ’غیر ملکی (غیرمقامی) اقسام‘ اور ’پولن الرجی‘ کا باعث بننے والے پودوں کی بجائے مقامی پودوں کو ترجیح دینی چاہئے جو فضائی آلودگی سے زیادہ بہتر تحفظ دیتے ہیں۔