سیلاب سے متاثرہ افراد کی و بحالی کے لئے ہنگامہ خیزی کی بجائے اگر تحمل سے کام لیا جائے تو اِس سے نہ صرف یہ کہ وسائل کی بچت ہوگی اور زیادہ افراد تک امداد پہنچائی جا سکتے گی بلکہ ایک جیسی امدادی سرگرمیاں سرانجام دینے والے حکومتی و نجی ادارے ایک دوسرے سے مربوط ہو کر انسانیت کی ’خدمت کا حق‘ زیادہ بہتر انداز میں ادا کر سکیں گے۔قابل ذکر ہے کہ خیبرپختونخوا کے محکمہئ صحت نے سیلاب زدہ اضلاع میں ہنگامی طبی امداد فراہم کرنے کے لئے کیمپ قائم کئے ہیں جہاں طبی ماہرین اور پینے کا صاف پانی‘ ادویات اور آفت زدگان کو محدود پیمانے پر مناسب پناہ گاہیں فراہمی کی جا رہی ہیں تاکہ سیلاب کے بعد بیماریاں پھیلنے کے معمول اور خطرے کو روکا (یا کم کیا) جا سکے۔ آلودہ پانی اور گلی سڑی کھانے پینے کی اشیا استعمال کرنے کی وجہ سے سیلاب زدہ علاقوں میں ہیضہ‘ ٹائیفائیڈ‘ لیپٹوسپائروسس‘ یرقان (ہیپاٹائٹس اے اور ای)‘ ملیریا‘ ڈینگی بخار اور سانپ کے کاٹنے کے امراض پھیلنے کا خطرہ ہے۔ پینے کے صاف پانی تک رسائی‘ نامناسب صفائی‘ پرہجوم کیمپ اور صحت کی دیکھ بھال کی خدمات کی کمی سیلابی پانی کے کم ہونے کے بعد زیادہ پیچیدہ صورتحال کو جنم دے گی لیکن اگر اِس کے بارے میں ابھی سے مناسب منصوبہ بندی نہ کی گئی۔ توجہ طلب ہے کہ سیلاب ہمیشہ ہی سے کھانے پینے کی اشیا کی ترسیل (سپلائی چین) کو منفی طور پر متاثر کرتا ہے جس کی وجہ سے بچوں میں غذائی قلت اور نشوونما رک جاتی ہے۔ متاثرین و غیرمتاثرین سیلاب کو یہ بات یکساں طور پر سمجھنا ہوگی کہ کسی بھی قدرتی آفت کو ظہور پذیر ہونے سے روکا نہیں جا سکتا لیکن اگر مناسب انتظامات اور متاثرین کو تحفظ یقینی بنایا جائے تو سیلاب کے منفی اثرات جس میں ذہنی و اعصابی دباؤ بھی شامل ہیں کو بڑی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔سیلاب سے متاثرہ آفت زدہ علاقوں میں مضر زہریلے جانوروں بالخصوص رینگنے والے جانوروں کے کاٹنے کا خطرہ رہتا ہے۔ ایسے علاقوں یا اِن کے قریبی علاقوں سے متاثرین اور مریضوں کا فوری انخلا آسان نہیں ہوتا کیونکہ حکومت کے پاس صحت عامہ کی ہنگامی بنیادوں پر سہولیات کی فراہمی کے لئے مالی وسائل کم ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جہاں اور جیسے حالات کا مقابلہ اُنہی مقامات پر کیا جاتا ہے جو مریضوں اور ڈاکٹروں (طبی و معاون طبی عملے کے لئے) پُرخطر ہوتے ہیں۔ سیلاب زدگان میں خوراک اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں جیسا کہ اسہال‘ پیچش‘ فوڈ پوائزننگ‘ ٹائیفائیڈ قسم کا بخار‘ ہیضہ‘ لیپٹوسپائروسس اور ہیپاٹائٹس اے اور ای میں اضافہ عموماً ہوتا ہے۔ آلودہ کھڑے پانی میں پیدا ہونے والی بیماریوں جیسا کہ ملیریا اور ڈینگی بخار کو مناسب رہائشی سہولیات (خیمے یا سر چھپانے کے لئے مقامات) کا بندوبست کر کے بڑی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ آفت زدہ علاقوں کے قریب جگہوں پر میڈیکل کیمپ لگانے کے ساتھ مریضوں کو صاف ہوا‘ پانی اور ٹرانسپورٹ تک آسان رسائی فراہم کرنا بھی اُن کی جسمانی و ذہنی صحت برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔مسلسل بارشوں کی وجہ سے سیلاب کی شدت میں کمی نہیں ہو رہی اور دوسری طرف شاہراؤں کی بندش کے باعث شدید بیمار مریضوں کو صحت کی سہولیات تک لے جانے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ خیبرپختونخوا کے ڈائریکٹوریٹ جنرل ہیلتھ سروسز نے ضلعی اور صوبائی سطح پر ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لئے ”کنٹرول رومز“ قائم کئے ہیں تاکہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں اور متاثرین کی نگرانی اور ہنگامی حالات میں ضرورت پڑنے پر فوری اقدامات کئے جا سکیں۔دریں اثنا خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور میں سیلاب زدہ علاقوں سے آنے والے مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے بیس بستروں پر مشتمل وارڈ مختص کیا ہے جبکہ علاج معالجے کو زیادہ بہتر بنانے کے لئے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیٹی بھی قائم کی ہے۔ اس سلسلے میں جاری کئے گئے ایک اعلامیے کے مطابق ”مریضوں کی بلاتعطل خدمات یقینی بنانے کے لئے طبی و معاون طبی عملے کے ارکان کی ہفتہ وار چھٹیاں بھی منسوخ کر دی گئی ہیں۔ اِس سے قبل خیبر ٹیچنگ کے عملے نے نوشہرہ اور چارسدہ میں ہنگامی طبی امداد فراہم کرنے اور شدید بیمار افراد کو علاج کے لئے خیبرٹیچنگ منتقل کرنے کے لئے خصوصی طبی کیمپوں کا انعقاد کیا تھا۔ اِس خدمت میں ’ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن‘ بھی پیش پیش دکھائی دے رہی ہے جس کے اراکین نے اپنی مدد آپ کے تحت نوشہرہ اور چارسدہ کے اضلاع میں مفت ہیلتھ کلینک کا انعقاد کیا اور چند دنوں ایک ہزار سے زائد مریضوں کا طبی معائنہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اِسی طرح ’پراونشل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن (پی ڈی اے)‘ نے بھی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بیماریوں کا پھیلاؤ روکنے کے لئے سوات‘ چارسدہ‘ مالاکنڈ‘ نوشہرہ‘ دیر‘ ڈیرہ اسماعیل خان اور چترال کے اضلاع میں الگ سے طبی کیمپوں کا انعقاد کیا ہے۔ قابل ذکر اُور قابل ستائش ہے کہ سرکاری و نجی ادارے‘ تنظیمیں اور انفرادی و اجتماعی حیثیت سے عوام سیلاب زدگان کی ہر ممکنہ مدد کر رہے ہیں۔ یہی وہ جذبہ ہے جس کی مثال ملنا مشکل ہے اور یہی وہ جذبہ ہے جس کی بدولت مشکل آسانی سے بدل جائے گی کیونکہ یہی رب کریم کا وعدہ ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی رکھی گئی ہے۔