افغانستان اس وقت مشکل دور سے گزر رہا ہے ایسے میں چین اور روس اس کی مدد کو پہنچے ہیں اور ایک طرف چین نے کئی شعبوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے اس کی مشکلات کو کم کرنے کی کوشش کی ہے تو دوسری طرف اب روس اور افغان طالبان سستے تیل معاہدے کے قریب پہنچ رہے ہیں۔افغانستان کی وزارت تجارت کے حکام کا کہنا ہے کہ طالبان انتظامیہ روس کے ساتھ پٹرول اور بینزین کی خریداری کے لئے ماسکو میں بات چیت کر رہی ہے اور معاہدے کی شرائط پر بات چیت آخری مراحل میں ہے۔ مغربی میڈیا رپورٹس کے مطابق افغانستان کی وزارت صنعت وتجارت کے ترجمان نے تصدیق کی کہ وزارت تجارت کی سربراہی میں ایک سرکاری وفد روسی دارالحکومت ماسکو میں موجود ہے اور گندم، گیس اور تیل کی فراہمی کے معاہدوں کو حتمی شکل دے رہا ہے۔
انہوں نے میڈیا کو بتایاکہ وہ روسی فریق کے ساتھ بات چیت کررہے ہیں اور معاہدہ مکمل ہوجانے کے بعد اس کی تفصیلات فراہم کی جائیں گی۔وزارت صنعت و تجارت کے ذرائع نے بتایا کہ ایک وزارتی وفد نے اس ماہ روس کا دورہ کیا تھا لیکن وفد کی واپسی کے بعد بھی ان کی وزارت اور وزارت خزانہ کے تکنیکی عہدیدار معاہدوں پر کام کرنے کیلئے ماسکو میں رک گئے تھے۔انہوں نے بتایا کہ ہم معاہدے کے متن پر کام کر رہے ہیں۔ پٹرول اور بینزین پر ہم تقریباً متفق ہوچکے ہیں اور توقع ہے کہ معاہدہ جلد ہی تکمیل کو پہنچ جائے گا۔یہ کئی حوالوں سے ایک اہم پیش رفت ہے کیونکہ امریکی اور غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلاء اور ملک پر طالبان کے کنٹرول کرلینے کے ایک برس سے زیادہ گزر جانے کے باوجود کسی بھی بین الاقوامی حکومت نے طالبان حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا ہے، ایسے میں اگر روس کے ساتھ یہ معاہدہ طے پا جاتا ہے تو یہ اس بات کی علامت سمجھا جائے گا کہ بیرون ممالک طالبان کے ساتھ کاروبار کرنے کے لیے تیزی سے آگے آرہے ہیں۔
یہ معاہدہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب امریکہ دیگر ملکوں کو روسی تیل پر انحصارکم کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کررہا ہے تاکہ اس کے بقول ماسکو تیل سے حاصل ہونے والی رقم کا استعمال یوکرین کے خلاف اپنی فوجی کاروائیوں کیلئے نہ کرسکے۔خیال رہے کہ روس اور طالبان کی زیر قیادت افغانستان، دونوں کو امریکہ سمیت بین الاقوامی حکومتوں کی جانب سے اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے روس سمیت کوئی بھی غیر ملکی حکومت طالبان انتظامیہ کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کرتی ہے بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے افغانستان کے بینک بری طرح متاثر ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے بیشتر عالمی بینک افغان بینکوں کے ساتھ لین دین کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں‘ دوسری طرف افغان طالبان کا کہنا ہے کہ ادائیگیوں کے لئے ان کے پاس منصوبہ موجود ہے،افغانستان کے مرکزی بینک کے منجمد اثاثوں، بینکنگ سیکٹر پر پابندیوں اور بیرون ممالک کی جانب سے باضابطہ طور پر تسلیم نہ کیے جانے کے باوجود چند ممالک افغانستان کے ساتھ کاروبار کر رہے ہیں جس سے اسے ملکی اقتصادی بحران کے دوران عالمی منڈیوں تک رسائی میں مدد مل رہی ہے۔