ہے ہنوز کچھ باقی‘ شاید امتحاں اپنا

اطلاعات ہیں کہ خیبرپختونخوا میں حالیہ ’تباہ کن‘ سیلاب میں ضلع سوات سب سے زیادہ متاثر ہے جہاں کے ’دراب شاہگرام‘ نامی گاؤں کی معیشت و معاشرت بارہ سال میں دوسری مرتبہ تباہ ہوئی ہے اور اِس مرتبہ بھی سیلاب ہی گاؤں کی خوبیاں بہا لے گیا ہے۔ قبل ازیں جولائی دوہزاردس کا سیلاب بھی اِس گاؤں کے مکانات‘ فصلیں اور باغات تہس نہس کرتے ہوئے آگے بڑھ گیا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ بارہ سال کے عرصے میں سیلاب سے بحالی کے لئے جس قدر حکومت اور مقامی آبادی نے اپنی مدد آپ کے تحت ترقیاتی کوششیں کیں ہیں وہ تمام سیلابی ریلے کی نذر ہوتے دیکھنے والوں کی اکثریت ایسے معمر افراد پر مشتمل ہے جو شاید اپنی زندگیوں میں دوبارہ گاؤں کا آباد ہوتا نہ دیکھ سکیں۔ یقینا یہ دکھ صرف وہی سمجھ سکتے ہیں جن کا اِس سے واسطہ ہے کہ بمشکل گھروں کی تعمیر نو اور زراعت کی بحالی ابھی مکمل بھی نہ ہو پائی تھی کہ اچانک سیلاب املاک‘ زمینیں اور باغات اپنے ساتھ بہا لے لیا۔

 مذکورہ گاؤں کے بیس گھر بہہ گئے ہیں لیکن خوش قسمتی سے اِس مرتبہ جانی نقصان نہیں ہوا۔ دراب شاہگرام جو سوات کی تحصیل ’بحرین‘ کی مشہور وادی ’مدین‘ کے قریب واقع ہے اپنی زرعی پیداوار بشمول سبزی‘ اناج اور پھلوں کے لئے مشہور ہے لیکن اب نہ وہ زرخیزی ہے اور نہ ہی اپنی محنت سے خاک کو گل و گلزار بنانے والوں کی آنکھوں میں خواب! چونکہ مذکورہ گاؤں میں زیادہ تر خاندانوں کا انحصار زرعی پیداوار پر تھا‘ جس کا نام و نشان مٹ چکا ہے تو تصور کیا جا سکتا ہے کہ سیلاب سے ہونے والی تباہی کس قدر گہری اور وسیع ہے۔ خیبرپختونخوا میں مخیر حضرات کی کمی نہیں اگر 20 مخیر حضرات اِن 20 گھرانوں کی کفالت اور بحالی کی ذمہ داری اُٹھا لیں تو یہ ملک کے دیگر سیلاب متاثرین غمزدہ خاندانوں کے لئے بھی باعث خیروبرکت ہو سکتا ہے۔

سیلاب زدگان کی امداد اور اُن کی بحالی سے زیادہ بڑی مشکل یہ ہے کہ کئی متاثرہ علاقوں میں سات روز گزر جانے کے باوجود بھی تاحال امدادی سرگرمیاں صرف اِس وجہ سے شروع نہیں کی جاسکی ہیں کیونکہ وہ علاقے ناقابل رسائی ہیں۔ سیلاب تو گزر چکا ہے لیکن یہ اپنے پیچھے انتہائی گاڑھا پانی‘ کیچڑ‘ دلدلی زمین اور کئی کئی فٹ کھڑا پانی چھوڑ گیا ہے‘ جس کی نکاسی کا سوائے سورج کی تپش کوئی دوسرا حل نہیں۔ گندگی و غلاظت‘ بدبو‘ مکھیوں مچھروں کی بہتات‘ پینے کے لئے صاف پانی اور دیگر اشیائے خوردونوش تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے صورتحال ہر دن گھمبیر ہو رہی ہے۔ صوبائی محکمہئ صحت کو سیلاب زدہ علاقوں میں امدادی کارکنوں اور اپنے عملے کو متحرک کرنے اور مریضوں تک ادویات پہنچانے میں دشواری کا سامنا ہے کیونکہ متاثرہ علاقوں میں ڈائریا‘ سانس کے انفیکشن‘ جلد کی بیماریاں اور سانپ بچھو وغیرہ کے کاٹنے کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

 اِس صورتحال میں صوبائی حکومت کے شانہ بشانہ ’ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن‘ انصاف ڈاکٹرز فورم‘ الخدمت فاؤنڈیشن اور ضلعی انتظامیہ ’طبی کیمپ‘ ایسے سیلاب متاثرین کے لئے نعمت ثابت ہو رہے ہیں جنہیں فوری طبی امداد کی ضرورت ہے۔ محکمہئ صحت نے متاثرہ علاقوں میں طبی سامان اور انسانی وسائل بھیجنے اور لوگوں کو سیلاب سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے بچانے کے لئے انتظامی محکموں سے وسائل اور تعاون بھی طلب کیا ہے۔ محکمے کی جانب سے سیلاب کی صورتحال سے متعلق مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق ”خیبرپختونخوا کے 12 اضلاع سیلاب سے متاثر ہیں جن میں تین روز کے دوران لگائے گئے 45 طبی کیمپوں میں 53 ہزار سے زائد مریضوں کو ادویات سمیت علاج معالجہ کیا گیا۔ اِن مریضوں میں زیادہ تر اسہال‘ سانس کے انفیکشن اور جلد کی بیماریوں میں مبتلا تھے جبکہ سانپ کے کاٹنے کے بیس کیسز بھی سامنے آئے اور سانپ یا دیگر زہریلے جانوروں کے کاٹنے سے بیمار ہونے والوں کو خصوصی انجیکشن لگائے جا رہے ہیں۔

 طبی ماہرین حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں زیادہ سے زیادہ پینے کا صاف پانی فراہم کرے اور خوراک کی قلت پیدا نہ ہونے دے کیونکہ بصورت دیگر آلودہ پانی و خوراک استعمال کرنے والوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ مخیر حضرات بوتلوں میں بند پینے کا پانی اور بغیر پکی ہوئی خوردنی اشیا بشمول دودھ‘ بسکٹ‘ ڈبوں میں بند خوراک تقسیم کریں تو اِس سے مختلف بیماریاں پھیلانے کا عمل بڑی حد تک رک جائے گا۔ طبی ماہرین اسہال‘ جلد کی بیماری اور بچوں میں سینے میں انفیکشن عام ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے انٹی بائیوٹک ادویات کے عطیات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اگرچہ خیبرپختونخوا کے دریا اُتر چکے ہیں اُور بارشیں بھی تھم چکی ہیں لیکن متاثرہ اضلاع میں کھڑا پانی ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے ملیریا‘ ڈینگی و دیگر بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔

 محکمہئ صحت کی جانب سے پچاس ماہر ڈاکٹروں پر مشتمل خصوصی ٹیموں کو مختلف متاثرہ علاقوں میں تعینات کیا گیا ہے جن میں ماہر امراض اطفال‘ عمومی بیماریوں کے معالجین‘ آرتھوپیڈک سرجن‘ ڈرمٹالوجسٹ اور گائناکالوجسٹ شامل ہیں لیکن یہ سبھی کوششیں ناکافی ہیں جس کی بنیادی وجہ ادویات کی قلت ہے۔ طبی ماہرین نے عوام سے درخواست کی ہے کہ وہ انسانی ہمدردی کے تحت سیلاب زدگان کی امداد کے لئے عطیات دیتے ہوئے جس سخاوت کا مظاہرہ کر رہے ہیں وہ مثالی ہے تاہم جابجا اور دروازہ کھٹکھٹانے والے کسی بھی شخص کو چندہ یا عطیہ نہ دیا جائے بلکہ عطیات دیتے ہوئے اُنہی تنظیموں کا انتخاب کیا جائے‘ جو سیلاب زدگان کی پہلے ہی سے مدد کر رہے ہیں‘ قابل ذکر ہے کہ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر پشاور کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد اور پشاور ہی سے تعلق رکھنے والی جملہ تاجر تنظیموں کے نمائندوں نے امدادی رقومات اکٹھا کرنے کے لئے ’اشرف روڈ‘ پر کیمپ لگا رکھا ہے جہاں بصد شکریہ عطیات وصول کئے جا رہے ہیں۔

 اہل پشاور سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ بذات خود کیمپ کا دورہ کریں اور مالی صورت یا اجناس اور کپڑوں کی شکل میں بھی مدد کریں‘ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پشاور کی تاجر تنظیموں کے نمائندوں میں اِس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ وقتی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ‘ سیلاب زدگان کو مکانات کی تعمیر و مرمت اور بحالی کے لئے امداد دی جائے اور اِس مقصد کے لئے ”خصوصی بحالی فنڈ“ قائم کیا گیا ہے جس کے لئے زیادہ سے زیادہ عطیات جمع کرنے کے لئے پشاور کی تاجر تنظیموں کی جانب سے ”جھولی پھیلاؤ مہم“ بھی جاری ہے۔ سیلاب زدگان درحقیقت مصیبت زدگان ہیں۔ ایک ایسی مصیبت جس سے چھٹکارا ”بیداری‘ احساس اور باہمی تعاون و یقین“ سے ممکن ہے۔