کرپٹوکرنسی سرمایہ کاری

’گلوبل کرپٹو انڈکس2021ء‘ نامی عالمی فہرست کے مطابق ”کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔“ لیکن پاکستان میں ’کرپٹو کرنسی‘ کے حوالے سے قوانین و قواعد موجود نہیں اور نہ ہی سرکاری سطح پر ’کرپٹو کرنسی‘ میں سرمایہ کاری کرنے کے اصول یا رہنمائی فراہم کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے چھوٹے بڑے سرمایہ کاروں سے زیادہ کرپٹو کاروبار کرنے والے سرمایہ کار صارفین کی لاعلمی یا کم علمی سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور ہر روز ایسی خبریں دیگر خبروں تلے دب جاتی ہیں‘ جس میں کرپٹو کرنسی کی خریداری میں دھوکہ دہی کا شکار ہونیوالے جرائم کی تحقیق کرنے والے حکومتی اداروں سے مدد کی درخواست کرتے ہیں۔ کرپٹو کرنسی سے متعلق جرائم کو دیگر جرائم کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے جبکہ اِس کی نوعیت بہت ہی مختلف ہے۔ دوسری اہم بات کرپٹو کرنسی کے حوالے سے ذرائع ابلاغ (پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا) کا رویہ ہے‘ جو اِس متعلق خبریں اور تجزئیات دیگر کرنسیوں کی طرح تواتر سے شائع نہیں کرتے یعنی کرپٹو کرنسی کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی جا رہی جس کی وجہ سے صارفین کا زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ 

یہی صورتحال انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مواصلاتی ٹیکنالوجی کا بھی ہے جس کا استعمال ہر خاص و عام کر رہا ہے لیکن اِس کے بارے میں وقتاً فوقتاً جاری ہونے والی حفاظتی ہدایات اور ایجادات سے صرف وہی طبقات باخبر رہتے ہیں جنہیں ٹیکنالوجی سے لگاؤ ہو اور جو انٹرنیٹ کے ذریعے تحقیق کا ہنر اور شوق رکھتے ہوں۔ دیگر سبھی صارفین کے لئے ٹیکنالوجی کو آسان (عام فہم) زبان میں بیان کرنے کے لئے بالخصوص الیکٹرانک میڈیا بشمول سوشل میڈیا کے ذریعے خدمات فراہم کرنے والے اداروں کو توجہ کرنی چاہئے۔ قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں صنعت کاروں اور تاجروں کی نمائندہ تنظیم ”فیڈریشن آف چیمبرز اینڈ انڈسٹریز“ نے مالی سال 2020-21ء سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی ہے‘ جس کے مطابق ایک سال کے دوران پاکستانیوں نے کرپٹو کرنسی میں ’20 ارب ڈالر‘ کی سرمایہ کاری کی۔ یہ سرمایہ کاری اِس قدر ہے کہ پاکستان کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر سے بھی زیادہ ہے اور سمجھا جا سکتا ہے کہ جب ہم پاکستان میں کرپٹوکرنسی سرمایہ کاری کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو درحقیقت یہ بیس ارب ڈالر جیسی خطیر رقم سے متعلق بات ہو رہی ہوتی ہے!

 فی الوقت کرپٹو کرنسی پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں کیونکہ پاکستان اِسے تسلیم ہی نہیں کرتا لیکن تعجب خیز ہے کہ پاکستان میں کرپٹوکرنسی کی خریدوفروخت ہوتی ہے اور زیادہ منافع کے لئے سرمایہ کاری کا یہ رجحان تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے قواعد و ضوابط (ریگولیشنز) کی فوری ضرورت ہے تاکہ پاکستان بھی دنیا میں آنے والے کرپٹو کرنسی انقلاب کے ثمرات سے پوری طرح فائدہ اُٹھا سکے۔ کرپٹو کرنسی عالمی حقیقت ہے جس سے انکار کرنے کی بجائے اِس کے محتاط اور زیرنگرانی استعمال میں کوئی حرج نہیں۔ اِس سلسلے میں بھارت کی مثال موجود ہے‘ جس نے اگرچہ کلی طور پر کرپٹوکرنسی کو ایک باقاعدہ کرنسی کے طور پر تسلیم نہیں لیکن الگ سے قواعدوضوابط تشکیل دیئے ہیں تاکہ کوئی اِس کا غلط استعمال نہ کر سکے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کرپٹو کرنسی متعارف ہونے کے بعد بھارت نے پاکستان ہی کی طرح اِس کی مخالفت کی تھی اور اِسے اپنانے (تسلیم کرنے) پر انکار کیا تھا لیکن پھر بھارت نے اپنی کرپٹو کرنسی حکمت عملی سے ”مکمل یو ٹرن“ لیتے ہوئے کرپٹو کرنسی کی خریدوفروخت اور اِس سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ٹیکس لگا دیا جس سے ایک طرف اُس کی قومی آمدنی بڑھی تو دوسری طرف قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کرپٹو کرنسی صارفین کے مفادات کا تحفظ کرنا شروع کر دیا اور اِس طرح بھارت میں خصوصی کرنسی سے جڑے خصوصی جرائم بڑی حد تک کم ہو گئے۔

 اگر کرپٹو کرنسی کے حوالے سے مغربی ممالک کی حکمت عملی دیکھی جائے تو وہاں کرپٹو کرنسی سے خوف محسوس نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کرپٹو کرنسی کو سرکاری کرنسی کے لئے خطرہ سمجھا جاتا ہے بلکہ جس طرح دنیا کے ہر ملک کی الگ الگ کرنسیاں ہیں بالکل اِسی طرح ’کرپٹو کرنسی‘ کو عالمی کرنسی سمجھا جاتا ہے البتہ ہر ملک اِس کی خریدوفروخت (استعمال) کے الگ الگ قواعد وضع کئے ہوئے ہے اور یہی وہ مرحلہ ہے جہاں پہنچ کر ممکن ہے کہ کرپٹوکرنسی تسلیم کرنے ممالک اِن الگ الگ قواعد و ضوابط کو ضم کرتے ہوئے ایک عالمی حکمت عملی تشکیل دیں۔ یہ صورتحال کس قدر دلچسپ اور قابل غور ہے اِسے سمجھنے کے لئے برطانیہ (انگلینڈ) کی مثال کو دیکھا جا سکتا ہے۔ برطانیہ میں ٹیکس عائد کرنے کی جامع قانون سازی موجود ہے جو یہ بتاتی ہے کہ کس طرح کرپٹو سے کمائی کیپٹل گین ٹیکس یا انکم ٹیکس کا حصہ ہو گی اور کرپٹو کرنسی سے آمدنی حاصل کرنے والا کس طرح ٹیکس ادائیگی کا ذمہ دار تصور ہوگا۔ اِسی طرح ’ایل سلواڈور‘ دنیا کا وہ پہلا ملک ہے جہاں حکومت نے ’کرپٹو کرنسی‘ کو عالمی کرنسی تسلیم کرتے ہوئے اِسے اپنا لیا ہے اور اس طرح لوگ بذریعہ بینکاری (سرکاری مالیاتی نظم و ضبط کے تحت) بٹ کوائن نامی کرپٹو کرنسی کا استعمال کرتے ہیں بلکہ اِسی کرپٹوکرنسی کے ذریعے وہ اپنی روزمرہ کی ضروریات‘ اشیائے خوردونوش اور دیگر خریداریاں بھی کرتے ہیں۔ کرپٹوکرنسی میں پوشیدہ نقصان سے زیادہ فائدے کے پہلوؤں پر غور کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی ملک کرپٹوکرنسی کو کس قدر جلد اپنائے تو اِس کا مطلب اُسی قدر زیادہ فائدے کی صورت اُسے حاصل ہوگا۔ 

کرپٹو کرنسی سے متعلق قانون و قواعد سازی کے مختلف مراحل میں اُن ممالک کے تجربات اور سوچ بچار سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے جن کے ہاں کرپٹو کرنسی کسی نہ کسی طور رائج ہو چکی ہے اور جہاں اِس کی خریدوفروخت سے حکومت ٹیکسوں کی صورت فائدہ بھی اٹھا رہی ہے۔ اگر پاکستان بھی ایسے ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے تو سالانہ کم سے کم 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والے محصولات (ٹیکسز) کا حجم غیرمعمولی ہوگا۔ اِس صورتحال اور ضرورت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر پاکستان کو مستقبل کی ’عالمی کرنسی‘ کا عالمی سطح پر مقابلہ کرنا ہے تو اِسے قانون سازی کے ساتھ مناسب قواعد و ضوابط بھی وضع کرنا ہوں گے جو وقت کی اشد ضرورت ہے۔پاکستان کے لئے عوامی جمہوریہ چین کی مثال بھی موجود ہے‘ جہاں نہ صرف ’بٹ کوائن‘ کی خریدوفروخت (کاروبار اور سرمایہ کاری) ہو رہی ہے بلکہ چین نے اپنی کرپٹوکرنسی (Binance, KuCoin, Huobi) بھی متعارف کرائی ہیں۔ بینانس 2017ء‘ کیوکوائن بھی سال 2017ء اور ہیوبی سال  2013ء میں متعارف کروائی گئی تھی۔ اِن کرپٹوکرنسیوں کا استعمال وہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے لئے بھی کر رہا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان کے فیصلہ ساز بھی کرپٹوکرنسی کو ’چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)‘ منصوبے کے تحت مالیاتی اصلاحات کا حصہ بنائیں گے اور اُس عالمی انقلاب کو چین کے نکتہئ نظر سے سمجھنے کی کوشش کی جائے گی جو دنیا میں اپنے پاؤں جما چکا ہے اور بہتری (فائدہ) اِسی میں ہے کہ کرپٹوکرنسی کے خلاف مزاحمت کی بجائے اِسے اپنانے اور اِسے قبول کرنے پر توجہ دی جائے۔ کرپٹو کرنسی سے معاشی ترقی اور خوشحالی جیسے فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں لیکن اِس کمال تک پہنچنے کے لئے اُس تبدیلی کو عملاً قبول کرنا ہوگا۔