افغانستان کو اس وقت متعدد بحرانوں کو سامناہے اور جہاں امن وا مان کی حالت ابھی تک خطرے سے دوچار ہے وہاں موسمیاتی تبدیلی کے زیر اثر وہاں قحط سالی کاخطرہ منڈلا رہا ہے۔اقوام متحدہ نے تنبیہ کی ہے کہ افغانستان میں قریب چھ ملین باشندوں کو شدید قحط سالی کا خطرہ ہے۔ اس کی دو بڑی وجوہات شدید موسمی حالات اور ملک میں پائی جانے والی بے یقینی ہیں۔اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی سرگرمیوں کے نگران عہدیدار مارٹن گرفتھس نے یہ بات ہندو کش کی اس ریاست میں انسانی بنیادوں پر امدادی کاموں کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک اجلاس کو بتائی۔
مارٹن گرفتھس نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ افغانستان کی نصف سے زیادہ آبادی کو اس کی بنیادی ضروریات پورا کرنے کے لئے انسانی بنیادوں پر مدد کی اشد ضرورت ہے۔ گرفتھس کے مطابق اگست 2021 میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے ہندو کش کی اس ریاست میں پہلے سے خراب صورت حال خراب تر ہو چکی ہے۔انہوں نے عالمی سلامتی کونسل کو بتایا کہ بے تحاشا بے روزگاری اور انتہائی حد تک غربت کے باعث بیسیوں ہزار افغان باشندے ایک بار پھر اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ عرصہ پہلے آنے والے تباہ کن زلزلے اور ملک کے مختلف حصوں میں آنے والے حالیہ اچانک سیلابوں کے نتیجے میں بھی حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔
عالمی ادارے کے انسانی بنیادوں پر امدادی کاروائیوں کے نگران ادارے کے مطابق بین الاقوامی برادری کی طرف سے افغان معیشت کی بحالی کے لیے ہر ہفتے تقریبا 40 ملین یورو کے برابر مالی وسائل مہیا کیے جا رہے ہیں۔ تاہم اس امداد کے باوجود افغان عوام کی مشکلات کم ہونے کی بجائے بڑھ رہی ہیں۔اقوام متحدہ کے مطابق اسے افغان عوام کی آئندہ موسم سرما کے دوران مدد کے لئے فوری طور پر تقریبا ً600 ملین یورو کی اشد ضرورت ہے۔ان رقوم کے ذریعے یہ عالمی ادارہ انتہائی ضرورت مند افغان باشندوں کے لیے رہائش گاہوں کی مرمت کرنے کے لیے علاوہ انہیں گرم کپڑے اور کمبل بھی مہیا کرنا چاہتا ہے جبکہ اقوام متحدہ نے خوراک اور زندہ رہنے کے لئے دیگر لازمی ساز و سامان کی مد میں کئی ملین افغان شہریوں کی امداد کے لئے تقریبا 154 ملین یورو علیحدہ سے فراہم کیے جانے کی درخواست بھی کی ہے۔