امتحانات: منفی رجحانات

بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن پشاور کی جانب سے دسویں جماعت (سیکنڈری سکول سرٹیفیکٹ SSC) کے نتائج کے اعلان (سترہ اگست) سے امتحانی نظام بارے سوشل میڈیا صارفین اور ماہرین تعلیم کے حلقوں میں ’امتحانی نظام‘ کے حوالے سے بحث جاری ہے۔  امتحانی نظام کی ناکامی یا اس کی کمزوری کے حوالے سے کئی عوامل کاکردار ہوسکتا ہے تاہم ان میں سب سے اہم بات امتحان میں نقل کے عمومی رجحان کی ہے اور ہرسال طلبہ کی ایک تعداد ’نقل کرتے ہوئے پکڑی جاتی ہے‘ جن کی کم سے کم سزا یہ ہے کہ اُن کا پرچہ منسوخ کر دیا جائے اور وہ دوبارہ ایک پرچے کا امتحان دیں جبکہ زیادہ سے زیادہ سزا یہ ہے کہ نقل کرنے والے طالب علم سے تمام پرچوں کا مکمل امتحان دوبارہ لیا جائے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ امتحانی نظام اہلیت کی درست شناخت و تشخیص میں ناکام ہے اور اِس پر منفی رجحانات کا غلبے کی وجہ سے یہ پورا ’امتحانی بندوبست‘ اصلاح چاہتا ہے۔ امتحانات میں ’دھوکہ دہی‘ اِس قدر عام ہو چکی ہے کہ اب اِس کے بارے میں نہ تو خبریں شائع ہوتی ہیں اور نہ ہی بحث و مباحثوں میں اِس حوالے سے غوروخوض ہوتا ہے۔ اصولاً ہر امتحانی بورڈ کو اِس بات کا پابند بنایا جانا چاہئے کہ وہ کسی بھی درجے کے اِمتحان کا اِنعقاد اور نتائج کا اعلان کرنے کے بعد طلبہ اور اُن کے والدین سے شکایت‘ آرأ اور تجاویز طلب کرنے کا پابند ہو اور اِس طرح حاصل ہونے والے خیالات (feedback) فائلوں کی نذر نہ ہوں بلکہ اُنہیں مدنظر رکھتے ہوئے ہر سال امتحانی نظام میں کوئی نہ کوئی اصلاح (تبدیلی) کی جائے اور اِس پورے سلسلے کے لئے ’آن لائن ذرائع‘ کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تعلیم زندگیوں‘ معاشروں اور معیشتوں کو بدلنے کا ’لازمی ذریعہ‘ ہے۔ یہ انسانی ترقی اور اجتماعی سماجی و اقتصادی ترقی کو فروغ دیتا ہے۔ تعلیم اور سماج ساتھ ساتھ (لازم و ملزوم) ہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں تعلیم کو مثالی نتائج کی عینک لگا کر دیکھا جاتا ہے اور یہ درس و تدریس کے عمل کی جامع تفہیم نہیں ہے۔ کیا تعلیم کا مقصد و ہدف یہی ہے کہ ڈگریاں (سرٹیفکیٹس) حاصل کئے جائیں اور مقابلے کی اِس دوڑ میں اہلیت (میرٹ کریسی) کو خاطرخواہ اہمیت نہ دی جائے؟ پاکستان میں 31 میٹرک اور انٹرمیڈیٹ یا ان کے مساوی امتحانی بورڈ ہیں‘ جن میں سے دو آغا خان یونیورسٹی ایگزامینیشن بورڈ اور ضیا الدین یونیورسٹی ایگزامینیشن بورڈ نجی ہیں۔ اِن کے علاؤہ 4 مذہبی امتحانی بورڈز ہیں اور 2 بین الاقوامی امتحانی ادارے ہیں جنہیں کیمبرج اسسمنٹ انٹرنیشنل ایجوکیشن (CAIE) اور انٹرنیشنل بکلوریٹ (IB) امتحانی بورڈ برائے ڈپلومہ پروگرام (DP) کہا جاتا ہے۔ اِسی طرح وفاقی سطح پر ایک الگ تعلیمی بورڈ ہے جس سے منسلک پورے ملک میں تعلیمی ادارے ہیں۔ فیڈرل بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے علاؤہ پنجاب میں آٹھ صوبائی پبلک امتحانی بورڈز ہیں۔ سندھ اور خیبرپختونخوا میں سات سات‘ بلوچستان‘ گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر میں ایک ایک تعلیمی بورڈ ہے۔ یہ امتحانی ادارے اپنے تشخیصی مراکز کے نیٹ ورک اور مقرر کردہ انتظامی عملے کے ذریعے سالانہ امتحانات کا انتظام کرتے ہیں اور خاص بات یہ ہے کہ اِن امتحانی بورڈز کے درمیان ایک دوسرے کے امتحانی تجربات اور اِن تجربات سے حاصل ہونے والے نتائج کے بارے تکنیکی سطح پر غور و خوض کی کمی ہے۔ ہمیں اُن لاکھوں طلبہ اور ملک کے مستقبل بارے سوچنا چاہئے کیونکہ ہر امتحان کے بعد سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں طلبہ صرف اِس لئے داخلوں سے محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ وہ زیادہ نمبر حاصل کرنے کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے تھے! امتحانی اداروں کو معیاری تعلیم کی فراہمی کے لئے ضروری سمجھا جاتا ہے اور جب معیار کی بات ہو تو ’امتحانی بورڈز‘ کا کردار سامنے آ جاتا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام کس قدر فعال‘ مستعد اور اپنے مقصد کو پورا کر رہا ہے اِس بات کا اندازہ اِس ایک حاصل سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ہر سال ساٹھ سے ستر فیصد طلبہ نویں یا دسویں جماعت تک پہنچنے کے بعد تعلیم چھوڑ دیتے ہیں۔رواں برس (دوہزاربائیس) میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات کے دوران  نقل کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے اور کوئی ایک بھی امتحانی بورڈ ایسا نہیں جہاں طلبہ نقل کرتے ہوئے پکڑے نہ گئے ہوں! بنیادی سوال یہ ہے کہ قصوروار کون ہے؟ جن کی وجہ سے طلبہ نے ’نقل‘ کرنے جیسا منفی رویہ اختیار کیا۔ دوسری اہم بات ’امتحانی پرچہ جات‘ کی حفاظت سے متعلق ہے۔ ہر سال یا تو امتحانی پرچے وقت سے پہلے ظاہر ہو جاتے ہیں یا پھر ’گیس پیپرز(Guess Papers)‘ بنانے والے ادارے اِن پرچوں کے سوالات کا حیرت انگیز (جادوئی) طور پر درست اندازہ لگا لیتے ہیں! یہ دونوں عوامل جرم ہیں۔ اصولاً اور قانوناً کسی مضمون کا مکمل امتحانی پرچہ یا اِس کے کچھ مندرجات لیک (leak) ہونے کا سختی سے نوٹس لینا چاہئے لیکن ایسا نہیں کیا جاتا۔ امتحانی بورڈز کی جانب سے شروع کی جانے والی معیاری امتحانی سرگرمیوں میں سوالیہ پرچہ جات کی تیاری‘ بروقت و محفوظ ترسیل یقینی بنانا‘ امتحانی مراکز کا انتخاب و انتظام‘ امتحانات کے لئے طلبہ کی رجسٹریشن‘ رہنمائی و سہولیات کی فراہمی‘ نگران و منتظم عملے (انویجیلیشن سٹاف) کا انتخاب و تقرری‘ امتحان کے عمل کے لئے ضروریات کی فراہمی اور بعدازاں نتائج مرتب کرنا اور اُن کا اعلان کرنا شامل ہوتا ہے اور یہ سبھی درجہ بہ درجہ (تہہ در تہہ) عوامل اپنی اپنی جگہ  کمزوریوں کا مجموعہ ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ سہولیات کا بندوبست اور اِن سہولیات کی بہرصورت فراہمی یقینی بنائی جاتی تاکہ طلبہ کسی دباؤ کا شکار نہ ہوں اور جسمانی مشقت یا تکلیف میں نہ پڑیں لیکن کیا ایسا ہی ہوتا ہے اور ہمارے امتحانی مراکز اس قدر باسہولت (آرام دہ) ہوتے ہیں کہ وہاں داخل ہوتے ہیں طلبہ راحت محسوس کریں۔ روشنی‘ ہوا‘ پانی اور آرام دہ نشستوں کا اہتمام ہو؟ اگر یہ سہولیات امتحانی مراکز میں ’سو فیصد‘ فراہم نہیں کی جا رہیں تو یقینا وقت ہے کہ امتحانی بندوبست کے ظاہری پہلوؤں کی اصلاح کی جائے۔ توجہ طلب ہے کہ بورڈ امتحانات پاکستان کے ضابطہ فوجداری (سی آر پی سی) کی ’دفعہ 144‘کے تحت بھی منعقد ہو سکتے ہیں جن میں ضلعی انتظامیہ امتحانی مراکز میں موبائل فونز کے استعمال پر پابندی عائد کر دیتی ہے۔ امتحانی قواعد و ضوابط کے اِسی سلسلے میں یہ بات بھی شامل ہے کسی بھی فوٹو کاپی مرکز کے قریبی امتحانی مرکز قائم نہ کیا جائے! غیر مجاز افراد امتحانی مراکز میں داخل نہ ہوں اور ایسا کرنے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے لیکن اِس قانونی کاروائی کی گرانقدر مثالیں موجود نہیں ہیں! کسی معاشرے پر اِس سے بڑا ظلم کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا کہ تعلیم اور امتحانات کے نظام و معیار ہی کو مشکوک بنا دیا جائے۔