ہزار طرح کے تھے رنج پچھلے موسم میں 

اور اب تو بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جن کے شب و روز میں کہیں ان لوگوں کا بھی گزر ہوتا ہو گا جن کے ساتھ کچھ ایسا کھیل کھیلا گیا کہ برسوں کی محنت سے بننے والے ان کے جنت مثال گھر لمحوں میں ریت کے گھروندوں کی طرح پانی بہا لے گیا، مانو ایک قیامت ان پر گزر گئی۔ان کی بے کسی اور بے بسی کی تصویریں سوشل میڈیا سے لے کر اخبارات اور برقی ذرائع پر شیئر ہوتی گئیں اور ہر آنکھ ان کے لئے اشکبار رہی پھر بھی سیلاب کی جفا کاریوں کی کہانی ان تصویروں کی زبانی زیادہ بیان نہیں ہو سکی اور اب جب پانی اتر گیا یا اتر رہا ہے تو صورت حال پہلے سے کئی گنا گھمبیر ہو گئی ہے کیونکہ پہلے تو ہر دل ان کی دلجوئی کے لئے پریشان تھا لیکن اب ان کے خیال میں سیلاب کے ختم ہونے کے ساتھ کہانی بھی ختم ہو گئی، جب کہ کہانی اور ایک دکھ بھری داستان کا تو اب آ غاز ہوا ہے، جن کے گھر بار بہہ گئے ان کا دکھ تو یقینا ایک ناقابل تلافی دکھ ہے مگر جن کے گھر سیلاب کی میزبانی کے بعد قدرے بہتر حالت میں ہیں وہاں کے آلام کچھ سوا ہیں، بیدل حیدری نے کہا ہے کہ 
  بارش اتری تو میں سیلاب کی آغوش میں تھا
  پانی اترا تو درختوں سے اتارے بچے 
 پانی واپس جاتے جاتے جو دکھ بھری کہانیاں گھروں کی دیواروں پر لکھ گیا ہے اور فرشوں پر ریت ملی مٹی اور پانی کے ساتھ آنے والی کثافتوں سے اتنی تہیں جما چکا ہے کہ بچے بھی آسانی سے چھتوں کو چھو سکتے ہیں شاہنامہ فردوسیؔ میں کہیں حملہ آور گھڑ سوارفوج کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کے گھوڑوں کے سموں سے تیز رفتاری کی وجہ سے اتنی دھول اٹھ رہی تھی کی زمینیں چھے رہ گئیں تھیں اور آسمان آٹھ ہو گئے تھے۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو سیلاب کے بعد ان گھروں کی کشافتوں کی تہوں کے باعث زمینیں تو شاید دس ہو چکی ہیں اور اس سے بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس کیچڑ بھرے ملبے کی صفائی کے دوران جہاں کئی مردہ جانوروں کے لا شے بر آمد ہو رہے ہیں جو اپنی جگہ ایک بہت بڑی آزمائش ہے کیونکہ بے جان لاشے کے مٹی سے نکلتے ہی فضا متعفن ہو جاتی ہے اور سانس لینا بھی دو بھر ہو جاتا ہے۔ چلئے مردہ جانوروں کو تو (بدقت ِ تمام ہی سہی) کسی طور ٹھکانے لگایا جارہا ہے لیکن اسی ملبے سے کچھ زندہ حشرات الارض بھی نکل رہے ہیں مجھے برخوردار ذیشان نے بتایا کہ نوشہرہ پیر سباق کے علاقوں میں بڑی تعداد میں بچھو اور سانپ نکل رہے ہیں، اسی دن میری بات دوست مہربان میجر عامر سے بھی ہوئی تھی وہ بھی سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے در بدر ہونے والے ہم وطنوں کے مصائب کی وجہ سے بہت مضمحل اور پریشان تھے، میں نے نیسا پور کا
 پوچھاتو کہنے لگے نہ صرف نیسا پور میں کئی دن پانی ہی کی حکمرانی رہی بلکہ جاتے جاتے پانی اپنے ساتھ نیسا پور کی طرف جانے والا راستہ بھی بہا لے گیا، اب جھیل سے آگے نہیں جایا جاسکتا۔ انہوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ نیسا پور میں ان کے ایک کارکن کو صفائی کے دوران سانپ نے کاٹ لیا۔ میں نے کہا نا کہ پانی اترنے کے بعد جو کہانیاں چھوڑ جاتا ہے ان کی اذیت کا ادراک کم کم لوگوں کو ہو تا ہے، اب تک متاثرین کو مختلف ریلیف کیمپوں میں رکھا گیا تھا مگر اب انہیں وہاں سے بے دخل کر کے ان اجڑے پجڑے گھروں کی طرف باقاعدہ دھکیلا جا رہا ہے بحالی کا کام اتنا جلدی کب نمٹتا ہے سیلاب کے دنوں کی ساری محبت اب اپنے ”غیر منطقی“ انجام کی طرف بڑھنے لگی ہے اس لئے اب ان لوگوں کے ساتھ ابھی تک جڑے رہنے والوں کی تعداد کم ہوتی چلی جارہی ہے، چھوٹے بڑے پیمانے پر ان کی بحالی میں ان کی مدد کرنے والوں میں بعض حساس اور درد مند تنظیمیں اب بھی پوری طرح ان کے ساتھ کھڑی ہیں،روٹری کلب سے لے کر ’کاوش‘ تک اور ’الحبیب والنٹئرز‘ سے لے کر وٹس ایپ گروپوں میں تشکیل پانے والی ان گنت تنظیموں کے نوجوان رضا کاروں تک جو شب و روز بحالی کے کاموں میں ان کی مدد کر رہے ہیں،ہر چند کہ اس سیلاب نے بہت سی بستیوں کو ملک بھر میں تاراج کر دیا ہے، لیکن دریائے کابل کے کنارے آباد بستیوں کو جس طرح خبر دار کیا گیا تھا کہ اب کے یہ سیلاب دو ہزار دس میں آنے والے سیلاب سے کئی گنا بڑا ہو گا اور اس سے کئی گنا زیادہ نقصان ہو گا لیکن چار سدہ، محب بانڈہ نوشہرہ اور خویشکی سمیت کے کچھ علاقوں میں اب تک کے محتاط اندازے کے مطابق سیلاب کی شدت سابقہ سیلاب کی نسبت بہت کم تھی، مجھے یہ بھی یاد ہے کہ اکتوبر99ء میں امریکہ کی کچھ سٹیٹس میں طوفان آنے کی پیش گوئی تھی میں اس وقت میسا چوسٹ سٹیٹ کے ٹاؤن ”کیپ کاڈ“ میں دوست مہربان کالم نگار و دانشور عتیق صدیقی کے پاس ان کے بہت ہی خوبصورت موٹل ’کیپٹن جوناتھن
“ میں تھا، طوفان کو جس شام آٹھ بجے آنا تھا اس سے تین چار دن پہلے سے ہی ٹاؤن کے جانے کتنے ہی اداروں کے اہلکار مسلسل آتے رہے اور سوئمنگ پول سے لے کر پانی کی ٹوٹیوں تک اور کھڑکیوں کے شیشوں تک ایک ایک چیز چیک کرتے رہے عتیق صدیقی کو مختلف حوالوں سے بریف کرتے اور ہدایات دیتے رہے مجھے سٹیٹ کی ذمہ داری نے بہت متاثر کیا اس زمانے میں تو ہمارے ہاں ڈھنگ کی موسمی پیشگوئی بھی نہیں ہوا کرتی اب تو چیزیں بہت بدل ہی نہیں بہت بہتر بھی ہو گئی ہیں، ہم ہر شام سمندر کی طرف نکل جاتے ساحل پر ٹہلتے، میں تو تا دیر ایک بنچ پر بیٹھ کر سمندر کی وسعت کو دیکھتا اور اسی ساحل پر آباد گھروں کو بھی دیکھ کر رشک کرتا کہ ان کی سمندر سے کتنی دوستی ہو گی اور شب مہتاب میں سمندر اور چاند کے رومینس سے کتنا لطف لیتے ہوں گے، میرا خیال تھا طوفان کی شام ہم لاؤنج میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ جائیں گے مگر ایسا نہ ہوا اور مضبوط اعصاب کے مالک عتیق صدیقی کے ساتھ میں ہوٹل کی بغلی سڑک پر ٹہلتے ہوئے بہت دور نکل آ یا تھا، میں نے انہیں طوفان یاد دلایا تو ہم لوٹ آئے واپسی پر پر سکون اور رنگ بدلتے پتوں والے درخت جھومنا شروع ہو چکے تھے ہم نے وہ رات آنکھوں میں کاٹی ہوائیں کھڑکیوں کے شیشے بجاتی رہیں مگر پھر سب کچھ تھم گیا، دوسرے دن معلوم ہوا کہ بعض ساحلی علاقوں میں تو بہت تباہی ہوئی مگر کیپ کاڈ سمیت بہت سے علاقوں میں ایسا کچھ بھی نہ تھا پھر جتنی شدت بتائی گئی اس سے بہت کم شدت کے ساتھ طوفان آیا تھا، جس پر میڈیا کا غصہ اور ناراضی دیکھنے لائق تھی کہ لوگوں کو ٹارچر کیا گیا، تب بھی میں نے کہا تھا کہ یہ وقت غصہ کا نہیں شکر ادا کرنے کا ہے اب بھی دریائے کابل کے کنارے بستیوں کے لئے بھی جو سابقہ سیلاب سے کئی گنا شدت کی پیشگوئی کی گئی تھی اس سے کہیں کم شدت کا یہ سیلاب تھا تو اداروں کی کارکردگی اپنی جگہ مگر یہ وقت شکر کا بھی ہے اور یقیناً سیلاب سے متاثرہ گھرانوں کی د ل و جان سے مدد کا بھی ہے ہماری ذمہ داری پانی چڑھنے سے مشروط نہیں ہونی چاہئے اب ان گھرانوں کو بے یارو مددگار نہیں چھوڑا جاسکتا، سرکار کی طرف سے مالی امدادکے ساتھ ان کو ان کے گھروں کو نئے سرے سے آباد کرنے میں بھی ان کا ساتھ دینا چاہئے، پانی اترنے کے بعد جس دکھ کے موسم میں متاثرہ گھرانے سانس لے رہے ہیں ان کا سوچتے ہی حلق نمکین ہو نا شروع ہو جاتا ہے۔ان کو اکیلاچھوڑ دیا تو جمال احسانی کی طرح یہ بھی اس دکھ کا اظہار کریں گے‘
 ہزار طرح کے تھے رنج پچھلے موسم میں 
 پر اتنا تھا کہ کوئی ساتھ رونے والا تھا