امتحانات: اخلاقیات

خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع کے تعلیمی بورڈز کو صوبائی سطح پر ایک ہی امتحانی بورڈ میں ضم کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں جبکہ اِس ممکنہ اقدام اور فیصلے کے خلاف مختلف بورڈز کا امتحانی عملہ (ممکنہ متاثرین) سراپا احتجاج ہے۔ یکم ستمبر دوہزاربائیس کے روز ’بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن‘ کوہاٹ کے اِمتحانی عملے نے ’تعلیمی بورڈز‘ کے مجوزہ اِنضمام کے خلاف اِحتجاج کیا اور پشاور بورڈ کے ساتھ ’انضمام‘ کی تجویز مسترد کرتے ہوئے اِس کے خلاف دھرنا دیا۔ احتجاج کرنے والوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر مذکورہ انضمام کا فیصلے واپس نہ لیا گیا تو امتحانی عملہ انٹرمیڈیٹ (ایف اے‘ ایف اے سی) کے نتائج روک دے گا۔ اِس احتجاج میں صرف امتحانی عملہ ہی نہیں بلکہ نجی تعلیمی اداروں (سکولز و کالجز) کے سینئر ملازمین اور عملے نے بھی حصہ لیا‘سبھی کا مطالبہ ہے کہ علاقائی سطح پر بنائے گئے ’امتحانی بورڈز‘ ختم نہ کئے جائیں جو ایک طرف روزگار کا ذریعہ ہیں تو دوسری طرف اِن سے لاکھوں کی تعداد میں طلبہ کو بھی آسانی کی صورت فائدہ ہے۔ احتجاجی کرنیوالے کے بقول ”اُنہیں اپنی ملازمت سے زیادہ کوہاٹ ڈویژن کے ہزاروں طلبہ کے مستقبل کی فکر ہے“ بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر کوہاٹ بورڈ برقرار رکھنے کا مطالبہ کرنے والوں کا کہنا تھا کہ ”بورڈز کے انضمام اور سینٹرلائزیشن کی صورت میں طلبہ کو ہزاروں روپے خرچ کر کے پشاور جانا پڑے گا اور دور دراز علاقوں سے چھوٹے چھوٹے کام کیلئے پشاور جانیوالوں کو وہاں رات بھی بسر کرنا پڑیگی جبکہ بورڈ سے رول نمبر حاصل کرنے اور فیس چالان جمع کرانے کیلئے قطاروں میں کھڑے ہونا پڑیگا جو قطعی طور پر غیرمنطقی ہے امتحانی نظام کو بہتر بنانے کیلئے حکومت جو اصلاحات کرنا چاہتی ہے اُس سے نہ صرف سرکاری خزانے پر بلکہ عوام کی جیبوں پر بھی بوجھ بڑھے گا“  دوسری اہم بات یہ ہے کہ ”دھوکہ دہی“ صرف رویئے کا مسئلہ نہیں بلکہ درحقیقت یہ اِس عمل کو سہولت فراہم کرنیوالی متعدد انتظامی پرتوں پر مبنی ہوتا ہے اگر اِن دو پہلوؤں کو ذہن میں رکھتے ہوئے پاکستان کے تعلیمی و امتحانی بندوبست کو دیکھا جائے تو ’میٹرک اور انٹرمیڈیٹ‘ کے امتحانات طلبہ کیلئے انتہائی اہم ہوتے ہیں کیونکہ اِنہی کے نتائج کی بنیاد پر اُنہیں مزید تعلیم کا اِنتخاب کرنا ہوتا ہے‘ یہی وہ مقام ہے جہاں سے تعلیم کی فروخت اور امتحانات کے اچھے نتائج ”خریدے“ جاتے ہیں۔ یہ چھپی ہوئی حقیقت نہیں کہ امتحان میں نقل (دھوکہ دہی) ایک باقاعدہ صنعت بن چکی ہے۔ ایسے اشاعتی و کاروباری ادارے ہیں جو نقل کرنے میں معاون مواد فروخت کرتے ہیں اور یہ کاروبار سالانہ ’اربوں روپے‘ مالیت کا ہے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ نقل میں معاونت کرنے والی کتب کی فروخت پر پابندی عائد ہے لیکن اِس پابندی کے باوجود پاکٹ سائز گائیڈ کتابیں‘ کھلے عام فروخت ہوتی ہیں‘پرنقل کا یہ مواد 2 صورتوں میں ملتا ہے ایک فوٹو کاپی جبکہ دوسرا مائیکرو کہلاتا ہے؛مائیکرو مواد قیمت کے لحاظ میں اگرچہ مہنگا ہوتا ہے تاہم اِس کی مانگ زیادہ ہے کیونکہ اِس نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے زیادہ مواد کو ایک چھوٹے سائز کے صفحے پر شائع کیا جا سکتا ہے‘ستم ظریفی نہیں تو کیا ہے کہ جس طباعت اور اشاعت کے نظام نے دنیا کو انقلاب دیا لیکن پاکستان میں وہی اشاعتی ٹیکنالوجی ’نقل (دھوکہ دہی)‘ کیلئے استعمال ہو رہی ہے! ایسا ہی ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد ہر سال بڑھ رہی ہے جو امتحانات میں نقل کرنا چاہتے ہیں اور یہی وہ رجحان ہے جس کی وجہ سے امتحانات میں نقل ایک باقاعدہ صنعت و معیشت بن گئی ہے جب ہم امتحانات میں نقل (دھوکہ دہی) کے رجحان اور اِس عمل کے باقاعدہ صنعت بن جانے کی بات کرتے ہیں تو معاشرے میں اُس سطح پر بات نہیں ہوتی‘ جس قدر بارش یا سیلاب سے متعلق ہوتی ہے حالانکہ یہ یکساں اہم مسئلہ ہے۔ کسی ملک و قوم کیلئے وہ مسئلہ حل کرنا ممکن ہی نہیں ہو سکتا جسے مسئلہ تسلیم ہی نہ کیا جائے۔ درس و تدریس اور امتحانات میں نقل  کی حوصلہ شکنی نہ ہونے کی بڑی اور بنیادی وجہ توجہ اور تنقید  ہے جو مختلف سماجی چیلنجوں کی طرف سے سامنے آتی ہے۔ اگر ہم معاشرتی ترجیحات کو فہرست کریں تو اِس میں امتحانات میں نقل کی نشاندہی بہت ہی کم تعداد میں لوگ کریں گے۔