اقوام متحدہ کی ”ٹرانسفارمنگ ایجوکیشن سمٹ“ جو رواں ماہ نیویارک میں شیڈول ہے‘تعلیم کے شعبے میں اصلاحات کے حامیوں کا اجتماع ہوگا جو مل بیٹھ کر اِس بات پر غور کریں گے کہ دنیا نے درس و تدریس سے کیا حاصل کیا ہے؟ عالمی سطح پر کن اصلاحات کی ضرورت ہے اور انہیں کس طرح لاگو کیا جائے گا؟ دنیا نے سمجھ لیا ہے کہ سماجی و اقتصادی ترقی تعلیم کے بغیر ممکن نہیں اور یہی وجہ ہے کہ اِس متعلق فیصلہ سازی اور قومی و عالمی ترجیحات کو از سر نو ترتیب دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔عالمی سطح تعلیمی اصلاحات پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لئے ’اضافی چیلنج‘ کی صورت سامنے آئیں گی اور مستقبل کے اِن ممکنہ چیلنجز سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی بنانے بلکہ موجودہ تعلیمی ڈھانچے کو ٹھیک کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ پاکستان کا تعلیمی نظام موثر ہے اور کماحقہ ضرورت پوری کر رہا ہے موجودہ تعلیمی نظام کے ہر پہلو کو تبدیل کرنے اور اِس پورے بندوبست کا اصلاح اور ترقی پسند سوچ سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے‘ پاکستان میں تعلیمی اصلاحات پر اس قدر تحقیق اور غوروخوض ہو چکا ہے کہ شاید ہی دنیا کا کوئی دوسرا ملک پاکستان کی ہمسری کر سکے لیکن مسئلہ اِن اصلاحات پر عمل درآمد کا ہے اور اِس معاملے میں پاکستان کی بہترین فیصلہ سازی بھی ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ بنیادی مسئلہ تعلیم کا نہیں بلکہ امتحانات کا ہے جس کے تشکیلاتی جائزوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ تعلیمی اداروں اور طلبہ کے درمیان‘ زیادہ نمبر حاصل کرنے کی دوڑ رہتی ہے اور اِس بے معنی مقابلے کی وجہ سے سیکھنے سکھانے کا عمل متاثر ہو رہا ہے جبکہ تعلیم کاروبار کا درجہ اختیار کر گئی ہے جس میں نتائج کی خریدوفروخت ہوتی ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ تعلیمی اداروں اور منتظم امتحانی بورڈ کو امتحانی نظام پر غور کرتے ہوئے طلبہ کی ذہنی اہلیت جانچنے کا کوئی ایسا معیار مقرر کرنا چاہئے جو تحریری امتحانات سے زیادہ کارآمد ثابت ہو اور اِس کے لئے بنیادی تعلیم کے مراحل سے اصلاحات متعارف کروانا ہوں گی۔ اگر طلبہ کی ذہانت اور علمیت کی تشخیصات کے لئے امتحان کے علاوہ بھی کوئی ذریعہ تشکیل دیا جائے تو اِس سے امتحانات میں نقل کا امکان محدود ہو جائے گا۔ ان ضروری تبدیلیوں کے ساتھ‘ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان کم سے کم اخلاقی تحفظات کی اجتماعی تفہیم پیدا ہوگی‘ جو بنا مربوط کوشش ممکن نہیں ہے اور مؤثر تعلیم کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے ایسا کرنا صرف ضروری ہی نہیں بلکہ ناگزیر حد تک ضروری ہو چکا ہے۔ دنیا کے قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھنے کے لئے کم از کم یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ امتحانات میں نقل ایک ایسا مسئلہ ہے جو نہ صرف تعلیم کے مقصد بلکہ اِس کی اخلاقی بنیادوں کو بھی کھوکھلا کر رہا ہے اور اِس سے ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی بھی متاثر ہے۔ بڑھتی ہوئی تکنیکی ترقی اور فوری سماجی و اقتصادی ردعمل کی ضرورت کے پیش نظر‘ غیر یقینی کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں سوچا جا سکتا ہے کہ جب مستقبل میں لوگوں کو زندہ رہنے کے لئے صرف تعلیم نہیں بلکہ ہنر اور صلاحیتوں کی ضرورت ہوگی تو کیا پاکستان سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ کی اکثریت عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکے گی؟دنیا ایک ایسے تعلیمی نظام کی طرف جا رہی ہے جس میں طالب علموں کی سوچ اور درس و تدریس (سیکھنے) کے عمل کو پابند نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ آزاد و خود مختار بنایا جائے تاکہ تعلیم سماجی ترقی میں نتیجہ خیز حصہ ڈال سکے۔