مون سون کے دوران معمول سے زیادہ بارشوں نے سیلابوں کے جس سلسلے کو جنم دیا اس نے پورے ملک میں جا بجا تباہی کی داستانیں رقم کیں۔اس وقت پوری قوم جس جذبے اور لگن سے سیلاب متاثرین کی بحالی میں مصروف ہیں اسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جلد ہی پورے ملک میں معمول کی زندگی بحال ہوجائے گی تاہم سیلابی پانی کے اترنے کے بعد بھی جن مسائل سے پالا پڑ سکتا ہے ان کیلئے ابھی سے تیاری ضروری ہے۔عالمی ادارہ صحت اور مقامی حکام کے مطابق ملک میں موجودہ سیلابی صورتحال میں پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں تیزی سے پھیل سکتی ہیں۔ پاکستانی حکام اور عالمی ادارہ صحت نے گزشتہ روز ملک میں سیلاب کے بعد صحت کے بحران کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔ حالیہ سیلاب کے نتیجے میں اب تک ایک ہزار ایک سو ساٹھ سے زائد افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ تینتیس ملین سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں۔اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل چلڈرن ایمرجنسی فنڈ کے مطابق پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں لاکھوں بچے صحت کے خطرے سے دوچارہیں جنہیں فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے‘ ایسے میں ضروری ہے کہ متاثرہ علاقوں میں گندے پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور جلد کے امراض کے متاثرین کا فوری طور پر علاج کا بندوبست کیا جائے۔نیز جس طرح کورونا وباء کے دوران ذہنی امراض کے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں آیا تھا اب شدید ترین سیلابوں کے بعد بھی ڈاکٹروں نے بڑے پیمانے پر ذہنی صدمے کے مسائل کی نشاندہی کی ہے۔جہاں تک خیبر پختونخوا میں تباہ کن سیلابوں کے نتیجے میں سامنے آنے والے نقصانات کو دیکھتے ہوئے بحالی کے مرحلے کی مشکلات سمجھ میں آجاتی ہیں اور اس ضمن میں صوبائی حکومت نے جس تندہی اور تیزی کے ساتھ بحالی کے کام کو جاری رکھا ہو اہے وہ قابل ستائش ہے۔اس تمام منظر نامے میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مشکل سے مشکل مرحلے کو بھی مربوط اور منظم کوششوں سے سر کیاجا سکتا ہے اور یہ پہلا موقع نہیں کہ قوم کو اس قسم کی آزمائش سے دوچار ہوئی ہے بلکہ اس سے قبل تباہ کن سیلابوں اور زلزلوں نے بھی قوم کو جھنجھوڑا ہے، اس مشکل مرحلے میں اگر کوئی مثبت حقیقت سامنے آئی ہے تو وہ بحالی کا جذبہ ہے جس نے مشکل کو آسان بنا دیا ہے۔اب اگر سیلابوں سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لیا جائے تو 15دستیاب رپورٹس کے مطابق جون سے 29 اگست 2022 تک مجموعی طور پرخیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں سیلاب اور بارشوں سے ہونے والے جانی نقصانات میں اب تک 264افراد جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں 36خواتین اور 106 بچے بھی شامل ہیں۔ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے کے دفتر سے جاری ہونے والے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 75 دنوں کے دوران بارشوں اور سیلابوں کے نتیجے میں خیبر پختونخوا میں 156 سکول اور تعلیمی اداروں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق اس دوران 9 ہزار 411 مویشی بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔ بارشوں اور سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہو نے والے علاقوں میں ڈیرہ اسماعیل خان، سوات، کرک، لکی مروت، ٹانک اور کوہستان کے علاقے شامل ہیں جہاں نا صرف جانی نقصانات زیادہ ہوئے ہیں بلکہ مکانات اور فصلوں کو بھی شدید نقصانات پہنچے ہیں۔ تاہم صوبائی حکومت کی طرف سے بحالی کا کام جس موثر منصوبہ بندی اور تیز ی سے انجام دیا جارہا ہے وہ قابل اطمینان ہے۔ یکم جولائی سے اب تک متاثرہ اضلاع میں آٹھ ہزار سے زائد ٹینٹ بھیجے گئے ہیں۔ چھ ہزار سے زائد ترپال شیٹ، ڈھائی ہزار سے زائد کمبل ا ور دیگر ضروری اشیاء کی ترسیل بحالی کے کام میں سہولت پیداکر رہی ہے۔