غذائی قلت

حالیہ سیلاب سے پاکستان کے مختلف حصوں میں زرعی اجناس کی قلت کے سبب جہاں قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے‘ وہیں اِس غذائی قلت کا رخ یہ بھی ہے کہ افغانستان کو خوردنی اشیا کی برآمدات بھی متاثر ہونے کا امکان ہے۔  اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ چونکہ افغانستان کو خوراک کی زیادہ تر امداد پاکستان کے راستے ہوتی ہے‘ اس لئے سڑکوں کے بنیادی ڈھانچے کو ہونے والے حالیہ نقصانات کا ترجیحی بنیادوں پر ازالہ کیا جائے کیونکہ اِس کی وجہ سے افغانستان کو اجناس کی فراہمی کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔ بلاشبہ پاکستان اور بین الاقوامی انسانی تنظیموں کے لئے فی الحال پہلی ترجیح پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی ضروریات پر توجہ مرکوز کرنا ہے اور اِس مقصد کے لئے اقوام متحدہ اور دوست ممالک نے امدادی اپیلوں کے علاوہ مدد بھی کی ہے۔سیلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غذائی قلت افغانستان اور پاکستان دونوں کے لئے یکساں بڑا اور اہم مسئلہ ہے جس کی شدت آنے والے کئی ماہ و سال تک رہے گی۔ مختصر مدت میں‘ دوسرے ممالک سے امداد اور خوراک کا سامان پہلے ہی پاکستان پہنچ رہا ہے لیکن بعد میں کیا ہوگا یہ ایک انتہائی ضروری سوال ہے؟ سیلاب کی وجہ سے نقل و حمل کا نظام بھی متاثر ہے اور لاجسٹک چیلنجز بھی اپنی جگہ موجود ہیں چونکہ افغانستان کیلئے زیادہ تر خوردنی اجناس پاکستان کی بندرگاہوں پر آنے کے بعد وہاں سے‘ افغانستان منتقل ہوتی ہیں تو اگر سڑکیں بند ہو جائیں یا تباہ ہو جائیں‘ تو پاکستان کے پاس صوبوں میں موجود خوراک افغانستان تک پہنچانے کا کوئی بندوبست نہیں اور نہ ہی صوبوں کے پاس اس قدر اضافی خوراک ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان سے برآمدکنندگان بھی اجناس کی فراہمی نہیں کر رہے کیونکہ ملک میں زرعی پیداوار پہلے ہی بہت کم ہے اور مکمل زرعی پیداوار کی صلاحیت بحال ہونے میں مہینے لگ سکتے ہیں جبکہ اس دوران عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ رپورٹس کے مطابق پاکستان میں خوراک ذخیرہ کرنے کی سہولیات کئی دہائیوں میں ’اپ گریڈ‘ نہیں کی جا سکی ہیں اور خوراک ذخیرہ کرنے کی سہولیات سیلاب سے ہونے والے نقصانات برداشت کرنے کے بھی قابل نہیں۔ پاکستان جیسے ملک کے لئے جو بنیادی طور پر اپنی زراعت پر منحصر ہے‘ جدید اور اچھی طرح سے محفوظ ذخیرہ کرنے والے مراکز ہونے چاہئیں لیکن بدقسمتی سے اس جانب زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ سال دوہزاردس میں بڑے پیمانے پر سیلاب آنے کے باوجود  ہم نے مستقبل میں دوبارہ ایسے کسی بھی سانحے سے نمٹنے کے لئے زیادہ تیاری نہیں کی۔ اب صورتحال افغانستان اور پاکستان دونوں کے لئے سنگین ہے جن کی مشترکہ آبادی ستائیس کروڑ (دوسوستر ملین) سے زیادہ ہے۔ افغانستان کی تقریباً نصف آبادی پاکستان میں سیلاب سے پہلے ہی غذائی عدم تحفظ کا شکار تھی۔ گلوبل ہنگر انڈیکس میں افغانستان 116ممالک کی فہرست میں 92 ویں نمبر پر ہے چونکہ پاکستان کا ایک تہائی حصہ پہلے ہی زیر آب ہے اور پنتالیس فیصد سے زیادہ فصلیں بہہ چکی ہیں‘ اس لئے صرف زرعی نقصانات سینکڑوں اربوں مالیت کے ہیں اور اِس پر قابو پانے کے لئے فوری ریلیف کی ضرورت ہے جبکہ مستقبل میں ایسی صورتحال سے بچنے کے لئے طویل المدتی منصوبہ بندی ہی واحد حل ہے۔