آبی گذرگاہوں کو واگزار کرنے کی ضرورت 

جن خدشات کااظہار ان کالموں میں باربار کیاجاتارہاہے بدقسمتی سے وہ حقیقت کاروپ دھار کرتباہی وبربادی کی داستانوں کی صورت میں اب سامنے آچکے ہیں دریائے سوات اوردریائے کنہار میں ہونے والی تجاوزات کے حوالہ سے ان کالموں میں متعد د بار اظہار خیال کیاجاچکاہے کچھ عرصہ قبل جب سوات میں آبی گزرگاہوں میں کی جانے والی تجاوزات کے خلاف کاروائی شروع کی گئی تو اس کاعوامی سطح پر خیر مقدم کیاگیا مگر جب ایک رات ہی میں مدین اوربحرین میں درجنوں گرفتاریاں ہوئیں تو پھر اچانک کاروائی روک دی گئی تاہم یہ ضرورہواکہ غیرقانونی تعمیرات کرنے والوں کو نوٹسز جاری کیے گئے دوسری طرف بدقسمتی سے مانسہرہ میں دریائے کنہار میں کی جانے والی غیرقانونی تعمیرات کے خلاف کوئی مؤثر کاروائی نہ ہوسکی وہاں کی ضلعی انتظامیہ،بالاکوٹ کی تحصیل انتظامیہ اور ساتھ میں کاغان ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے آنکھیں بند کیے رکھیں اورپھر وادی مانور سے نکلنے والے سیلابی ریلے نے مہانڈری میں بڑے پیمانے پرتباہی پھیلادی اس وقت جبکہ سیلابی پانی اتررہاہے ایک بارپھربارشوں کی پیشگوئیوں کی بدولت متاثرین میں خوف کی لہر پھیلی ہوئی ہے کیونکہ خدانخواستہ اگر پھر کوئی سیلابی ریلہ آتاہے تو سوات کے ساتھ ساتھ وادی کاغان میں بھی بڑے پیمانے پر نقصانات کاخدشہ ہے کیونکہ جیساکہ پہلے کہاگیاکہ صوبہ کے شمالی اضلاع میں آنے وال سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کی بڑی وجہ آبی گذرگاہوں میں قائم ناجائز تعمیرات کو بھی قراردیاجارہاہے جو سوات اور مانسہرہ دونوں اضلاع میں بڑی تعداد میں ماضی میں قائم ہوئیں اور ان کے خلاف مؤثر کاروائی نہ ہوسکی اگر سوات کی بات کی جائے تو وہاں خوش قسمتی سے ڈویژنل کمشنر شوکت علی یوسفزئی ہیں جو نہ صر ف سوات سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ اس سے قبل بنوں میں اربوں روپے کی سرکاری زمینیں تجاوزات مافیا سے واگزار بھی کراچکے ہیں اسی طرح ڈپٹی کمشنر سوات جنید خان خود ایک بہت ہی محنتی اور دھن کے پکے سرکاری افسر ہیں چنانچہ سوات میں تو کچھ عرصہ قبل ان ناجائز تعمیرات کے خلاف عملی اقدامات کاآغاز کیا گیا اور بڑی تعداد میں تعمیرات مسمار بھی کردی گئیں مگر اس کے باوجود مدین،بحرین اور کالام میں بعض تعمیرات دریا ؤ ں کے کنارے موجود رہیں جن میں بڑی تعداد ہوٹلوں اورریستورانوں کی تھی سیلاب نے سب سے پہلے انہی ناجائز تعمیرات کو متاثر کیا کالام میں جس ہوٹل کی دریابردگی کی ویڈیوبہت زیادہ وائر ل ہوئی ہے اس کے متعلق کہاجارہاہے کہ 2010ء میں بھی یہ سیلاب کی نذرہواتھا اوردوبارہ اسی جگہ پھر بنایاگیا سوال یہ ہے کہ جس وقت یہ ہوٹل تعمیر ہورہاتھا اس کے خلاف کاروائی کیوں نہیں ہوئی اوربعدازاں اتنے سال تک کیونکریہ ہوٹل قائم ودائم رہا اسی لیے تو اب یہ مطالبات سامنے آرہے ہیں کہ صرف غیرقانونی تعمیرات کرنے والوں ہی نہیں بلکہ ان کی اجازت دینے والوں اور بعد ازاں ان کی طرف سے آنکھیں بند کرنے والے سیاسی رہنماؤ ں اورسرکاری عمال کے خلاف بھی مؤثر کاروائی کی جائے دوسری طرف بالاکوٹ سے لے کر ناران اور جل کھڈ تک دریائے کنہار میں سینکڑوں ناجائز تعمیرات موجودہیں جن کے خلاف کبھی سنجید ہ کاروائی نہیں کی جاسکی ماضی میں اگر کوئی کارروائی ڈالنے کی کوشش کی بھی گئی تو اس میں پسند وناپسند کے الزامات لگتے رہے ہیں دریائے کنہار میں ناران کے مقا م پر اب بھی بڑے بڑے ہوٹل زیر تعمیر ہیں جو بااثر شخصیات کے ہیں جن کے خلاف کاروائی سے کے ڈی اے بھی قاصر نظر آتاہے اس لیے ان ہوٹلوں کی تعمیر مسلسل جاری ہے اورعین دریامیں بنائے جارہے ہیں کیاان کے بنانے والے ہر قسم کے قاعدے اورقانون سے ماوراء ہیں اس سوال کے جواب میں مستقبل کے اقدامات کے امکانات پوشیدہ ہیں حالیہ تباہی کے بعد سے عوامی حلقوں کا صوبائی حکومت سے مسلسل یہ مطالبہ رہاہے کہ ناجائز تعمیرات کے ذمہ داروں کے خلاف فوری کاروائی کی جائے ان کامطالبہ ہے کہ سوات کے ساتھ ساتھ مانسہرہ میں بھی دریاؤں میں ناجائز تعمیرات کے خلاف اب ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں تاکہ نہ صرف آبی گذرگاہیں واگذار کرواکر مستقبل میں بدترین سیلاب کے خطرات کو کم کیاجائے بلکہ انسانی زندگیوں کو لاحق خطرات کابھی مستقل بنیادوں پر سد باب کیاجائے جب وزیر اعلیٰ محمود خان نے سیلاب کے بعد سوات کاپہلا دورہ کیا تو انہوں نے ایک بارپھر اس کاسخت نوٹس لیتے ہوئے آبی گذرگاہوں میں قائم تعمیرات کے خلاف فوری ایکشن کاعندیہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ اس قسم کی تعمیرات مزید کسی صورت برداشت نہیں کی جائیں گی جس کے بعد یہ خبریں سامنے آنے لگی ہیں کہ بڑھتے ہوئے عوامی مطالبات کے تناظر میں صوبائی حکومت کی ہدایات کے بعد ملاکنڈ بھر میں آبی گذرگاہوں میں قائم ہوٹلوں اورریستوران مالکان کے خلاف بھرپورکاروائی کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں پہلے مرحلہ میں ان تمام تعمیرات مالکان کے خلاف کاروائی کی جائے گی جن کو سیلاب سے قبل ہی نوٹسز جاری کیے گئے تھے اس سلسلہ میں جلد ہی ذمہ داروں کے خلاف ایف آئی آرز کے اندراج کاسلسلہ شروع کردیاجائے گا حالیہ سیلاب کے باعث سوات سمیت ملاکنڈ ڈویژن کے مختلف اضلاع میں آبی گزرگاہوں میں قائم غیر قانونی تعمیرات کے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کے حوالہ سے عوامی مطالبات میں شدت کے بعداب صوبائی حکومت نے ایکشن لینے کافیصلہ کیاہے اس سلسلہ میں کمشنر ملاکنڈ ڈویژن شوکت علی یوسفزئی کاکہناہے کہ آبی گذرگاہوں میں تعمیرات کے حوالہ سے ریور پروٹیکشن ایکٹ بالکل واضح ہے اور جس نے بھی اس ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر قانونی تعمیرات کررکھتی تھیں ان کے خلاف بھرپورکاروائی کی جائے گی سیلاب سے قبل ہم نے تجاوزات کے خلاف بھرپور مہم شروع کی ہوئی تھی اس مہم کے دوران جن ہوٹل اورریستوران مالکان کو نوٹسز جاری ہوئے تھے سب سے پہلے انہی کے خلاف کاروائی کی جائے گی ان کاکہناہے کہ دریابرد ہونے والے ہوٹلوں کے ملبہ کی وجہ سے ہی سیلابی پانی کی شدت میں اضافہ ہوا جس نے پھر آگے جاکربہت زیادہ نقصان پہنچایا انہوں نے واضح کیاکہ ایسے عناصر کسی رورعایت کے مستحق نہیں وزیراعلیٰ محمودخان کے احکامات بھی اس حوالہ سے بہت واضح ہیں مستقبل میں ایسے خطرات سے بچنے کے لئے اب بھرپور اورمؤثر کاروائی کی جائے گی سوات کی حد تک تو کاروائی کے ا مکانات ر وشن ہوگئے ہیں تاہم مانسہرہ کے حوالہ سے ایک بارپھرمکمل خاموشی ہے کے ڈی اے کے چیئر مین ایمل زمان اس صورت حال سے پوری طرح باخبر ہیں اور خود ایک متحرک انسان ہیں ان سے توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ یہ معاملہ خود وزیر اعلیٰ محمود خان کے نوٹس میں لاتے ہوئے ہنگامی بنیادوں پرکاروائی شروع کروائیں گے کیونکہ کے ڈی اے نے توعملی طورپر ہاتھ اٹھارکھے ہیں اوراسے تحصیل انتظامیہ کی طرف سے عدم تعاون کابھی شکوہ ہے اس صورت میں اگر کل کو دریا ئے کنہار میں قائم غیرقانونی تعمیرات کی وجہ سے کوئی بڑا نقصان ہوتاہے تو ضلعی وتحصیل انتظامیہ کے ساتھ ساتھ کے ڈی ا ے بھی برابر کی ذمہ دار ہوگی۔